سیلاب نے ہمیں کیا سکھایا ؟

حالیہ مون سون بارشوں کے نتیجے میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے دوران زیادہ تر لوگوں کا یہی ردعمل تھا کہ یہ طوفانی بارشیں دراصل اللہ تعالیٰ کی ہم سے ناراضی ہے، سیلاب سے ہونے والی تباہی کی شدت شاید اب تک کم ہو گئی ہو لیکن اس نے جو سکھایا ہے وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہنا چاہیے، نوشہرہ اور چارسدہ کے شہر، صوبہ خیبر پختونخوا اور ان کے مضافات میں پہلی بڑی آبادیاں تھیں جو اس غیر معمولی سیلاب کی زد میں آئیں جس نے بعد میں پاکستان کے پانچویں حصے تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کے نتیجے میں تقریباً70 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، سیلاب سے ہونے والی تباہی کے اصل اعداد و شمار شاید اس سے کہیں زیادہ ہوں جو حکومت کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں، نہ صرف بنیادی ڈھانچہ بلکہ حاملہ خواتین اور بچوں سمیت پورے کے پورے خاندان پانی میں بہہ گئے ہیں اور یہ ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب ثابت ہوا ہے۔
مقامی لوگ اس تباہی کو قدرت کے غیظ و غضب سے منسوب کرتے ہیں جب کہ حکومت نے بڑھتی ہوئے عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے لیکن اس حوالے سے اور بھی بہت کچھ تھا جو دیکھنے کو ملا، عالمی سطح پر گرین ہاؤس یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں ہے حالانکہ یہ دنیا کی آبادی کا تقریباً تین فیصد ہے، تباہ کن سیلاب کا باعث بننے والی موسمیاتی تبدیلی سے تحقیق نے ایسے شواہد سامنے لائے ہیں جو اس آفت کے انسانی ساختہ ہونے کا اشارہ کرتے ہیں جیساکہ موسم کی غیرمؤثر پیش گوئی کا مجموعی اثر، حد سے زیادہ جنگلات کی کٹائی، مٹی کے کٹاؤ اور بنیادی ڈھانچے کی مرمتی پرکم توجہ ، انجینئرنگ کے معیارات، جو کثیر القومی اداروں کے ذریعے استعمال کیے جاتے ہیںکی پاسداری نہ ہونا شامل ہیں ۔
صوبہ سندھ اور بلوچستان سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے جہاں سینکڑوں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے، سیلاب نے ایک ایسے ملک کو تقریباً مفلوج بنا دیا ہے جو پہلے ہی ایک سنگین معاشی بحران اور مہنگائی سے دوچار تھا، چنانچہ یہ خدشہ ہے کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے اثرات کے پاکستان کو برسوں یا دہائیوں پیچھے لے جا سکتی ہے، اگرچہ کسی بھی طرح سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ سیلاب کی تباہی سے مکمل طور پر بچا جا سکتا تھا لیکن یقیناً نقصانات کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا تھا، حکومت کی جانب سے فوری ردعمل یا اقدامات سے اس دہائی کی بدترین ہنگامی صورتحال سے بچا سکتا تھا، کہاوت ہے کہ وقت کا ایک ٹانکا بے وقت کے نو ٹانکوں سے بہتر ہے،لیکن یہاں جب سیلاب جیسے خطرے کی گھنٹی بجی تو پہلے سے بحران کا شکار معیشت کو سیاسی افراتفری کا بھی سامنا تھا، غیر متوقع طوفانی بارشیں جون کے وسط میں شروع ہوئیں جب کہ 25 اگست کو حکومت کی جانب سے ہنگامی حالت کا اعلان کیا گیا۔
حکومت نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر لگایا ہے، ستمبر 2022 ء میں، سرکاری حکام نے کم از کم30 ارب ڈالر تعمیر نو کے اخراجات اور معاشی نقصان کا تخمینہ لگایا، جو کہ جی ڈی پی کے تقریباً 10 فیصد کے برابر ہے، یقیناً ہمارے سامنے جو صورت حال ہے وہ سنگین ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش ان لوگوں ،جنہوں نے اپنے خاندان، اپنی زمین، اپنی روزی روٹی کا واحد ذریعہ کھو دیا ، ان کی مدد کے حوالے سے حکومتی ایکشن پلان اور عزم سے متعلق ہے، سیاسی اور معاشی لحاظ سے پاکستان اس نوعیت کی تباہی کے لیے تیار نہیں تھا،بلاشبہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے معاملے میں پاکستان کی ذمہ داری واقعی بہت کم ہے لیکن ہمارے حکام نے اس حوالے سے پیشگی اقدامات کی طرف بھی توجہ نہیں دی، ناقص نظم و نسق، منصوبہ بندی کا فقدان اورموافق حکمت عملیوں سے نابلد ہونے کی وجہ سے اس سال موسمی حالات سے تباہی زیادہ ہوئی، جو ہمیں آنے والے برسوں ہمارے لئے مزید پریشان کن ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ہماری ہزاروں ہیکٹر زرعی اراضی تباہ ہو چکی ہے، طبی سہولیات سمیت بنیادی سہولیات پر لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور لوگوں کے پاس آلودہ پانی پینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
سیلابوں کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کو تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن لوگوں کو جو مصائب درپیش ہیں وہ بلاشبہ نظم ونسق کے اس ناقص ڈھانچے کا نتیجہ ہیں، ہمارے پاس 2010 ء کے سیلاب کے بعد اپنی حالت بدلنے کے لئے 12 سال تھے لیکن 12 سال گزرنے کے بعد بھی ہمارے عوام مایوسی کی کشتی میں ہی سوار ہیں، افسوس ناک امر یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں اور مقامی حکام نے ان تمام برسوں میں غیر قانونی تعمیراتی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا، اگر اب بھی سوچ سمجھ کر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو آنے والے برسوں میں اس کے نتائج اس سال کے تباہ کن سیلاب سے زیادہ مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔
(بشکریہ ، دی نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم