ترقی کا تصور یکساں نہیں ہوتا

ایک سیمینار میں میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی جو اپنے برطانیہ کے ویزے کا انتظار کر رہا تھا تا کہ اپنی اعلی تعلیم کے لیے لیڈز(Leeds) روانہ ہو سکے۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کس مضمون میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہے؟ اس کا جواب دو الفاظ پر مبنی تھا، ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز۔
اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتی، اس نے مجھے بتایا، ” چونکہ میں ترقیاتی شعبے میں کام کرتا رہا ہوں اور پہلے بھی بیرون ملک اس مضمون کے حوالے سے تعلیم حاصل کر چکا ہوں، تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو بھی وہاں پڑھوں یا سیکھوں ضروری نہیں کہ ہمارے ملکی حالات سے مطابقت بھی رکھتا ہو”۔ اس نوجوان سے زیادہ دیر گفتگو تو نہ ہو سکی، لیکن میں اس کی باتوں پر ایک عرصے تک غور کرتی رہی۔ میرے ذہن میں یہ سوال بار بار اٹھتا کہ یہ بالکل صحیح بات کر رہا ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود ہم ترقی یافتہ ممالک کے پاس جا کر جدید ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیوں آخر کیوں؟ نوجوان کے معنی خیز مشاہدے نے مجھے اس لیے بھی متاثر کیا کہ وہ اپنے تجربے سے سبق حاصل کرتا رہا ہے۔ اس وقت مجھے ڈاکٹر اختر حمید خان جنہوں نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی بنیاد رکھی تھی، کی ایک بات یاد آ گئی۔ ان کے مطابق ترقی کا جذبہ لوگ اپنے اندرہی سے پیدا کر سکتے ہیں، یہ کسی غیر ملک سے نہیں آئے گا۔ نوجوان کو بھی یہ بات اپنے تجربے سے معلوم ہوئی۔ اسی سلسلے میں غلام کبریا جو کہ پیپلز پارٹی کے پہلے دورہ حکومت میں، موزوں ٹیکنالوجی کی ترقی کی تنظیم کے چیئرمین تھے، کہتے تھے کہ باہر سے جس ٹیکنالوجی کی ضرورت محسوس ہو، اس کو پاکستان کے حالات کے مطابق ڈھال لینا چاہیے اور اسی کو وہ موزوں ٹیکنالوجی کہتے تھے۔
اسی ضمن میں معروف آرکیٹیکٹ عارف حسن کافی سالوں سے اس کی نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ پاکستان میں بہت سی ایسی ٹیکنالوجیز، ترقی کے نام سے درآمد کی گئی ہیں، جو یہاں استعمال بھی نہیں ہو سکتیں کیونکہ وہ یہاں کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کونسی ٹیکنالوجی کی ضرورت کتنی ہے اور یہ کس شکل میں حاصل کرنا چاہیے؟ ان ممکنہ مسائل اور سوالوں کا جواب ملک کے مشہورو معروف سماجی سائنسدان اور دانشور ڈاکٹر اختر حمید خان نے اپنے قائم کردہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی شکل میں پیش کیا تھا۔ یہ منصوبہ ان کے عمر بھر کے مطالعے، تحقیق، تحریر اور تجربے کا لب لباب تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر اختر حمید کی عوام کے بارے میں گہری فہم اور ہم نفسی تھی اور وہ لوگوں کے مسائل بغیر کسی تعصب کے دیکھ سکتے تھے۔ 1980ء میں جب انہوں نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی بنیاد رکھی۔
یہ آبادی تھی تو شہری لیکن اس علاقے میں ذرہ برابر بھی ترقیاتی کام نہ ہوا تھا۔ ڈاکٹر اختر حمید نے جو طریق کار اختیار کیا اس کو وہ تحقیق اور توسیع کہتے تھے۔ اس طرح پہلے وہ تحقیق کرتے اور پھر اس کے نتائج سے اپنا طریق کار تشکیل دیتے۔ اس طرح سے کام بالکل مقامی ہوتا اور نالے، گھر وغیرہ مقامی سامان و صلاحیتوں سے بنائے جاتے۔ ڈاکٹر اختر حمید کے چند سخت اصول تھے، جن پر باقاعدگی سے عمل ہوتا تھا۔ سب سے پہلے ان کا کہنا تھا کہ ہر آبادی میں کوئی نہ کوئی سربراہ بن کر ابھرتا ہے جسے لوگ پسند کرتے ہیں اور جس کی بات سنی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے سماجی کار کن بھی ہوتے ہیں، جن سے عوام کو لگا ہوتاہے اور ان کی عزت بھی کی جاتی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں وہ بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں بشرط یہ کہ ان کی تربیت کر دی جائے۔ منتظمین کو چاہیے کہ وہ سربراہ اور سماجی کارکنان کو اپنے ساتھ ملا کر رکھیں تاکہ عوام ترقیاتی منصوبوں کو بخوشی اپنائیں۔
ایک اور اصول یہ ہے کہ منصوبہ عوامی ہونا چاہیے یعنی یہ کہ اس میں سادگی ہو، حساب کتاب درست ہو اور دکھاوا، یا بناوٹ بالکل نہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ منصوبے کو باخبر افراد کے سامنے پیش کیا جائے، جن کو احساس ہو کہ ملک کے غریب عوام زندگی کیسے گزارتے ہیں تاکہ لوگوں میں یکجہتی پیدا ہو۔ ترقیاتی کام گھر بنانے اور صفائی ستھرائی سے ہی شروع ہوتا ہے اور اس کے لیے اکثر ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جو کم قیمت میں اچھا گھر بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اختر حمید کا ایک اصول ترقیاتی منصوبوں میں اعلیٰ تعلیم کی درس گاہوں اور جامعات کو بھی شامل کرنا تھا۔ ان کے بقول اس طرح رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ سب سے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں کو بین الاقوامی مکالموں میں شریک ہونا چاہیے۔
میری رائے میں ارباب اختیار کو ان اصولوں اور تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی تمام منصوبے شرو ع کرنے چاہئیں کیونکہ جو قومیں اپنے تجربات سے نہیں سیکھتیں وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتیں۔

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک