عسکری پریس کانفرنس اور شور کا سینسرشپ

صحافی ارشد شریف کی موت پر بہت کچھ کہا گیا اور سنا گیا لیکن اصل بات وہ سوالات ہیں جو پوچھے گئے یا اٹھائے گئے ہیں۔ لیکن ”شور کے سینسرشپ”میں کون سنتا ہے اور کون سوچتا ہے۔ شور کا سینسرشپ جس کا مقتول صحافی ماضی میں خود بھی حصہ رہے ہیں۔ جب اس ملک میں آزاد صحافی سوال اٹھایا کرتے تھے اور مقتول ارشد شریف کاغذات پٹھک پٹھک کر وہ شور مچاتے کہ اصل مسئلہ دب جاتا تھا۔لیکن مقتول ارشد شریف کے لئے میں نے اس طرح کا احتجاج نہیں دیکھا۔ کیوں؟ شور، بے پناہ شور، ایسا شور جس کا وہ کبھی حصہ تھے اور اب ان کے جانے کے بعد خود ان کے ساتھی مچا رہے ہیں۔ شور میں اصل سوال دب چکے ہیں۔ شور میں مقتول کی وجہ قتل تک دب چکی ہے۔ یہ تک نہیں سنا جا رہا کہ ایک صحافی قتل ہوا ہے۔ شور میں زیادہ آوازیں یہی ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے لئے آواز اٹھا رہے تھے۔ زیادہ شور یہی ہے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت گئی تو سیاسی اپوزیشن پارٹی کارکنان کی طرح وہ بھی عتاب کا نشانہ بنے۔ پھر آپ بتائیں کون سا پریس کلب اس کے لئے مظاہرہ کرے اور کیوں کرے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کرکے وہی بنیادی سوالات اٹھائے لیکن اس کے بعد پھر کان پھاڑ شور اٹھا۔ جس شور کی وجہ سے اپنے اپنے شعبوں کے سربراہان نے پریس کانفرنس کی اسی پریس کانفرنس کی آوازوں کو شور میں ملا کر شور اٹھایا گیا۔ اصل مدعا دوبارہ شور میں گم ہوگیا۔ مقتول ارشدشریف جس کے بارے میں شور تھا کہ وہ تحریک انصاف کے بیانیے کے لئے آواز اٹھاتے ہوئے مارے گئے اس کے جنازے تک میں تحریک انصاف کے سربراہ نے شرکت کرنی ضروری نہیں سمجھی بلکہ رات کو عسکری پریس کانفرنس کے جواب میں مزید آوازیں بلند کی گئیں۔
پریس کانفرنس کے دوران کئی چہرے ایسے نظر آئے جس نے شور کے سینسر شپ کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور وہ بھی مقتول ارشد شریف کی طرح شور مچا کر سینسرشپ کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ کسی نے عقل والی بات کی اور پنجے جھاڑ کر غدار غدار کاشور مچا کر وہ آواز دبانے والے اس پریس کانفرنس میں بھی بیٹھے تھے۔ کیا عجب تماشہ ہے۔ صحافت کے یہ”زومبیز”کسی کے کام کے نہیں ہوتے اور نا کبھی ہوں گے۔ یہ اسی کیکر کے بیل ہیں جو آپ نے سیب اگانے کے لئے لگائے تھے۔کمال کی بات یہ کہ خیبرپختونخوا حکومت جس نے مقتول کو باہر نکالنے کا اہتمام کیا اور جس کو عسکری پریس کانفرنس میں دکھایا گیا، بتایا گیا اس صوبے میں ان زومبیز کی تخلیق کے لئے کروڑوں روپے کا فنڈ مختص کیا گیا ہے۔ لیکن مجال ہے کہ اداروں کی جناب سے یہ سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ صحت اور تعلیم جیسے شعبوں کے لئے تنخواہیں تک نہیں بچیں لیکن ان زومبیز پر صوبے کا سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے۔اگر اب بھی آپ بضد ہیں کہ اس والی بیل پر سیب اگیں گے تو آپ کی مرضی صاحب آپ کو پہلے کسی نے روکا ہے کہ کو اب روکے گا۔
جہاں تک مقتول ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کا تعلق ہے تو گزشتہ لگ بھگ ایک ہفتے سے سوشل میڈیا ایفلونسرز جتنا شور مچا سکتے تھے اور یوٹیوبرز جتنا ”ویووز”لا سکتے تھے وہ لا چکے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام بھی کیا خوب ہیم چے گویرا نے اس کے خلاف مزاحمت کی تحریک چلائی اور اس نے ہیرو بنا کر ٹوپی سے تصاویر تک کے پراڈکٹ بنا کر بیچے۔ جنازے سے قبل ہی مقتول ارشدشریف کے گھر کے باہر صحافتی زومبیز کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک وہ بھی تھا جو مقتول کے ہاتھوں پٹ چکے تھے ایک ایسے وی لاگ پر کہ جس کا ذکر اب مقتول کے مرنے پر کرنا مناسب نہیں ہے۔ جیسے ہی وہ دفن ہوئے وڈیوز اور تصاویر حاصل ہوئے ان تصاویر اور وڈیوز کو لے کر عسکری پریس کانفرنس پر چڑھائی کی گئی۔ اگلے روز لانگ مارچ کے لئے بھی انہیں استعمال کیا گیا۔ باقی ارشد شریف کو کس نے مارا؟ کیوں مارا؟ کیسے مارا؟ یہ سوال اہم نہیں بلکہ اسے شہید بنا کر شہادت کا مقصد تحریک انصاف کا بیانیہ قرار دیا گیا۔ ماننا پڑے گا اس میں تحریک انصاف کامیاب رہی۔
اب آگے کیا ہوگا یہ سوال بہت پوچھا جا رہا ہے۔ اصل میں کہانی نومبر کی ہی ہے۔ یہ پیالی میں طوفان نومبر کے لئے ہی ہے۔ ایک دفعہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہو گئی تو یہ سارا شور تھم جائے گا۔ نا یہ حکومت ایسی رہے گی اور نا ہی تحریک انصاف یہ تحریک انصاف رہے گی۔ نئی بساط اور نئے معاملات ہوں گے۔ اقتصادی معاملات کے حل کی کوششیں تیز کی جائیں گی اور حکمران اتحاد میں دراڑیں پیدا ہوں گی۔ دبے دبے لفظوں میں مارشل لاء کی آوازیں بھی اٹھی ہیں۔ لیکن کوئی بھی مارشل قومی اور بین الاقوامی ایجنڈے کے بغیر نہیں آتا۔ بظاہر کوئی ایجنڈا نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیا لانگ مارچ یا اس طرح ہی سرگرمیوں سے خون خرابے کا امکان ہے؟ بالکل اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اقتدار اور طاقت کی جنگ ہے اور اس کے لئے حکمران نے اپنے خون کے رشتوں تک کی بلی چڑھائی ہے تو پھر عوام کس کھیت کی مولی ہیں۔ اس کے جواب میں گورنر راج بھی لگ سکتا ہے؟ حکمران اتحاد ابھی تک خیبرپختونخوا میں گورنر تک نہیں لگا پائی تو گورنرراج کیا لگا پائے گی۔ ہاں البتہ اگر ادارہ چاہے تو تحریک انصاف کے گورنر بھی خوشی خوشی گورنر راج لگا دیں گے۔ باقی رہی خیبر ہختونخوا حکومت تو مقتول صحافی ارشدشریف کو درپیش خطرات کے تھریٹ لیٹر سے لے کر ان کو باہر نکالنے کے انتظامات تک میں ان کے ملوث ہونے کے شواہد مستقبل میں ان کا ضرورت پڑنے پر پیچھا کر سکتے ہیں۔ تو کیا ایسی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ فی الوقت لگتا تو نہیں ہے کیونکہ اس کے بغیر بھی معاملات نمٹائے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک مقتول ارشدشریف کے قتل کی تحقیقات ہیں وہ ان کی سیاسی صحافت کی طرح سیاست کی نذر ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے