تو کہاں بارش سے پہلے میں کہاں بارش کے بعد

اہل مغرب کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ پہلی بار کسی سے ملتے ہیں’ یہ ملنا اچانک کسی محفل میں ہو ‘دوران سفر ہو یا پھر اور کوئی موقع محل اور ان کے پاس بات کرنے کا کوئی موضوع نہ ہو تو ایسے موقعوں پر موسم ان کی مدد کو آجاتا ہے یعنی وہ آپس میں موسم کے حوالے سے گفتگو کا آغاز کرکے بات آگے بڑھاتے ہیں ‘ بات موسم کی آگئی ہے تواس حوالے سے کالم لکھنے کی نوبت یوں آگئی ہے کہ گزشتہ روزایک ماہر موسمیات کا بیان سامنے آیا ہے جس نے ہمیں بھی اس موضوع پر بات کرنے کا حوصلہ دے دیا ہے ‘ ماہر موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ پاکستان میں رواں سال معمول سے زیادہ سردی پڑ سکتی ہے ‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نومبر کے دوسرے ہفتے سے ملک میں شدید سردی پڑ سکتی ہے’ ماہر موسمیات جواد میمن کے مطابق نومبر کے پہلے ہفتے سے قطب شمالی پر موجود سرد ہوائوں کابھنور کمزور ہوجائے گا’ سرد ہوائوں کی اس کیفیت کو یولرور ٹیکسس کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر موسم سرد ہونے لگتا ہے موسمی کیفیت کے اثرات پاکستان میں معمول سے زیادہ سردی کی صورت میں نظرآئیں گے’ ایسی کیفیت میں اگر دوانگریز آپس میں ملیں اوربات موسم کی آجائے تو ممکن ہے کہ وہ بھی اس لطیفے سے استفادہ کرتے ہوئے ‘ جو برصغیر کے کسی مقام پر دو افراد کے درمیان گفتگو سے وجود میں آیا تھا ‘ اس کے بعد ان کی گفتگوآگے تو بڑھ سکتی ہے مگر دوران گفتگو اگرایک میرتقی میر کی طرح ”مردم بیزار” طبیعت رکھتا ہو توپھر گفتگوکا یہ سلسلہ منقطع بھی ہوسکتا ہے ‘ جیسا کہ ایک بار دلی سے لکھنؤ تک کے سفر کے دوران بگھی میں میرتقی میر کے ساتھ ایک”پینڈو” بیٹھا تھا ‘ سفر کی طوالت کے پیش نظر اس شخص نے اپنے اجڑ دیہاتی لہجے میں میر کو کئی بار گفتگوپرآمادہ کرنے کی کوشش کی مگر میر صاحب ٹھہرے کوثر و تسنیم میں دہلی ہوئی زبان کے وارث ‘ وہ ہوں ‘ ہاں کرکے خاموش ہوجاتے ‘ آخر زچ ہو کر ہمسفر نے میرصاحب سے شکایت کی کہ وہ کیوں بات کاجواب نہیں دے رہے ہیں تو میر صاحب نے کہا میاں ‘ ہم اپنی زبان خراب کرنے کی اجازت کسی کوبھی نہیں دے سکتے ۔ خیرمیر تو میر ہی تھے ان کی نازک مزاجی ان کی طبیعت کا خاصا تھی ‘ جبکہ احمد فراز نے بھی کسی سفر کے دوران ایک”ہمسفر” کی خوش مزاجی سے متاثر ہو کر کیا خوب کہا تھا
سفر طویل سہی گفتگو مزے کی رہی
وہ خوش مزاج اگر تھا تو میر میں بھی نہ تھا
فراز خوش قسمت تھے جنہیں ہمفسر بھی ”ہر زاویئے” سے خوش مزاج ہی ملا تھا ہمیں مگر جو تجربہ اس حوالے سے ہوا وہ بھی پورا نہیں تو آدھا آدھا میر تقی میر جیسا ہی لگا ہوا یوں کہ ہمیں ریڈیو کے دور زمانہ میں ڈرامے کی ٹریننگ کے لئے جرمنی جانا پڑا ‘ دبئی تک تو ہم پی آئی اے سے گئے ‘ آگے تقریباً دس گھنٹے کاطویل سفر ہم نے جرمن ایئر لائن لفتھانزا میں طے کیا ‘ ہوائی جہاز کے اڑان بھرنے کے بعد جب فلائیٹ اعتدال پر آگئی تو فضائی میزبانوں نے چائے اور سوفٹ ڈرنکس فراہم کرنی شروع کردیں ‘ دوتین بار تو جرمن میزبان خاتون نے خندہ پیشانی سے ہماری خدمت بجالاتی رہی مگر مسلسل اور ہر بار سوفٹ ڈرنکس کا سن کر بالاخر وہ زچ ہو گئی اس کے مقابلے میں سوفٹ ڈرنک طلب کرنے پر ان کو مشکل یوں پیش آتی کہ ان ڈرنکس کی بوتلیں ٹرالی کے بالکل نچلے خانے میں ذرا دور پڑی ہوتیں ‘ جنہیں نکال کر کھولنے اورگلاس میں انڈیلنے پرانہیں ہارڈ ڈرنکس کی بوتلیں بند کرکے ایک لمحے کے لئے ٹرالی میں واپس رکھا خاصا ناگوارلگ رہاتھا ‘ یوں وہ جب بھی ڈرنکس پیش کرتے ہوئے ہماری لائن کے قریب آتیںتوان کے ماتھے پرشکنیں ابھرآنا فطری بات تھی ‘گویا موصوفہ ہمیں بقول میر اجڈ ‘ جاہل سمجھ کر ہم سے بات کرنے تک کی روادار نہ تھیں مگر اپنے فرض منصبی کے تقاضوں سے مجبور ہو کربادل ناخواستہ سوفٹ ڈرنکس پلانے کا ”جبر” برداشت کر رہی تھیں ۔ گویا بقول شاعر
محتسب تسبیح کے دانوں پہ یہ گفتار رہا
کس نے پی ‘ کس نے نہ پی ‘ کس کس کے آگے جام تھا
ہمارے حساب سے تو اس وقت طیارے میں ماسوائے ہم تین پاکستانی دوستوں کے باقی کوئی بھی ان جرمن غارتگر تمکین و ہوش ساقیوں کے ہوشرباء ادائوں سے بچا ہوا نہیں تھا ‘ انہیں بقول مرزا غالب ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں والے بیانئے کی بھی کوئی فکر نہ تھی واپسی پر بھی بہت حد تک ایسی ہی صورتحال تھی کہ فضائی میزبانوں کے حسن کے جلوے جا بجا بکھرے ہوئے تھے کہ یہ ممالک اس بات کا بہت التزام رکھتے اور اہتمام کرتے ہیں جبکہ ہماری پی آئی اے کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے ۔خیربات ہو رہی تھی موسم کی شدت کی تو ہمارے خیال میں ماہر موسمیات تب پیدا نہیں ہوئے ہوں گے یا کہیں ان کا بچپن ہوتا ہوگاجب پشاور میں 15ستمبر کے بعد سردیاں آغاز ہوجایا کرتی تھیں اور 15اپریل تک خنکی آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہو جاتی تھی ۔ تب جنگلات کی تباہی کے لئے محکمہ جنگلات اور ٹھیکیداروں کے مابین ایکا نہیں ہوا تھا ‘ اور خوب خوب(بروقت) بارشیں برسنے سے اللہ کی نعمت چاروں موسم پورے جوبن پر ہوتے تھے ۔ جنگلات کی بربادی نے کیاگل کھلائے اس پر پھر کبھی بات کریں گے ۔ انشاء اللہ ۔
تو ہے ست رنگی دھنک اور میں گلی کوچوں کی گرد
تو کہاں بارش سے پہلے ‘ میں کہاں بارش کے بعد

مزید پڑھیں:  خلاف روایت عمل