قاتلانہ حملے کے ثبوت

سپریم کو رٹ میں عمر ان خان کے خلا ف توہین عدالت کے مقدمے کی سما عت کے دوران چیئر مین پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمر ان خان پر حملے کا مقدمہ تاحال درج نہیں ہوسکا، جس پر عدالت نے آئی جی پنجا ب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجا ب کو طلب کیا ، عمر ان خان کے وکیل بھی عدالت میںپیش ہوئے اس مو قع پر چیف جسٹس عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم کے تحت پولیس خود ایف آئی آر درج کرسکتی ہے آئی جی پنجا ب نے عدالت میں انکشاف کیا کہ پنجا ب حکومت نے ایف آئی آر درج کر نے سے منع کیا ہے، تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئی جی پنجا ب کو چوبیس گھنٹوں میں حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر مقدمہ درج نہ ہو ا تو ازخود نو ٹس لیں گے اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے یہ بھی کہا کہ ایف آئی درج کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے ، آپ اپنا کا م جاری رکھیں اگر کسی نے مداخلت کی توپھر ہم مداخلت کریں گے، ایف آئی آر دراصل انگر یزی کے جملے first information report کا مخفف ہے، جس کے اردو میں معنی لیے جاتے ہیںکہ فوری ابتدائی اطلا ع ، چونکہ یہ ابتدائی اطلا ع ہوتی ہے اس لیے یہ حتمی رپورٹ کو درجہ نہیں رکھتی، حتمی رپو رٹ کہتے ہیں کہ جب تفتیش اور دیگر قانونی تقاضے پورے کر کے جو تفصیل مرتب کی جاتی ہے اور عدالت میں حتمی چالان کی حیثیت سے پیش کی جائے وہ حتمی رپورٹ ہوتی ہے جس میں جرم کے بارے میں مکمل معلوما ت، ثبوت اور شہادتیں درج ہوتیں ہیں، وزیرآباد کے واقعہ کے رونما ہو نے کے وقت پولیس موقع واردات پر موجود تھی چاہیے تو یہ تھا کہ فوری طور پر مقام واردات کو اپنی تحویل میں لے لیتی،موقع پر ملزم بھی گرفتارہوا اس لیے اس کو ابتدائی رپورٹ میں نامزد کیا جاتا جیسا کہ تاخیر سے درج کی جا نے والی ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے، چنانچہ پنجاب حکومت کی غفلت کی بناء پر ایف آئی آر متنازع ہوگئی ہے کیوں کہ عمران خان وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ایک حاضر فوجی افسر کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں، عمران خان اس وقت سے اس فوجی افسر کے درپے نظر آرہے ہیں جب وہ کراچی میں تعینات تھے لیکن جب سے ان کا تبادلہ اسلا م آبا د ہوگیا تو اس وقت سے وہ کچھ زیادہ ہی بھڑکنے لگے ہیں تاہم انہو ں نے ابھی تک قوم کو نہیں بتایا کہ ان کا ایک سرکا ری وہ بھی فوجی شخصیت سے کس بات کا ویر ہے، جن کو وہ نیو ٹرل گردانتے ہیں ان کے بارے میں سمجھ آتی ہے کہ انہوں نے عمران خان کی خواہشات ہاتھ کھینچ لیا ہے اور سیا ست بازی سے الگ تھلگ رہ کرصرف آئینی اور قانونی کر دار ادا کرنے کا تہیہ کر لیا ہے جو عمر ان خان کو کھِل رہا ہے، وہ ان غیر جمہو ری بیساکھیو ں کے ذریعے سیاسی کامیا بی کے ہنوز خواہ ہیں،، وہ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ وہ اقتدار میںکس طرح آئے تھے؟ جہا ں تک ایف آئی آ ر کے اندراج کا تعلق ہے اس بارے میں بھی انہوں نے اسی ادارے کو بدنام کر نے کی مہم شروع کر رکھی ہے چنانچہ اپنی اسی بے بسی و بے چارگی پر انہو ں نے ایف آئی آر کو مسترد کر دیا اسی طرح انہو ں نے واقع کے بارے میں جو ڈیشنل انکو ئری کمیشن کو بھی رد کر دیا، کیو ں کہ وہ جن کو نامزد کرنا چاہتے تھے ان کی اپنی حکومت کے سربراہ اس معاملے میں ان کی خواہش کے تابع ہونے کو تیا ر نہیں تھے مگر اپنی حکومت کے اس اقدام کی بلا کو کسی اور کے گلے ڈال رہے ہیں، ہوا یوں کہ کہ وزیرآباد فائرنگ کیس کے بعد پنجاب کابینہ کے اجلا س میں ایف آئی آر درج نہ ہونے پر تلخ کلامی ہوئی تو اس موقع پر وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے بولا یار تم سب کو کیا ہو گیا ہے میں کیسے ایک حاضر سروس فوجی افسر کے خلاف پرچہ کاٹنے کا حکم دے سکتا ہوں سب حوصلے سے میری بات سنو حملہ آور کو ہم پکڑ چکے ہیں اس کی پوری فیملی کو اٹھا لیا ہے جس نے اسلحہ بیچا ان کو بھی پکڑ چکے ہیں تو وزراء نے بولا ٹھیک ہے اگر ایف آئی آر نہیں کاٹنی تو پھر فوراً جے آئی ٹی تشکیل دو تو پرویز الٰہی نے بولا ایسا بھی ممکن نہیں جب تک ایف آئی آردرج نہ ہو تب تک جے آئی ٹی بھی نہیں بن سکتی پہلے ایف آئی آردرج ہوگی وہ تحقیقات کرے گی پھر اس کے بعد کسی کا نام سامنے آتا ہے تو وہ ضمنی میں شامل کرلیا جائے گا اس پر کافی تلخ کلامی کہ بعد معاملہ عمران خان کی طرف بھیجا گیا پھر وہاں پرویز الٰہی کو بلایا گیا وہاں پرویز الٰہی نے بولا خان صاحب آپ کیا کر رہے ہیں؟ ہم سب مفت میں مارے جائیں گے آپ نے جو سیاسی بیان بازی کرنی تھی وہ اسد عمر کے ذریعے کرچکے اور خود بھی بہت کچھ بول چکے ہیں اب ایسا کام نہ کریں تو عمران خان نے کہا ٹھیک ہے تم جاؤ اپنے آفس میں دیکھتا ہوں کیا کرنا ہے پرویز الٰہی بھی غصے سے واپس چلے گئے اس کے بعد عمران خان نے اپنے بھانجے زبیر نیازی کو بلایا اور ساتھ سابقہ گورنر پنجاب اور موجودہ مشیر داخلہ عمر سرفراز چیمہ کو فون کیا اور بولا زبیر تمہارے شہر وزیرآباد آرہا ہے اس کے ساتھ تھانے جاؤ فوراً ان کے خلا ف پر چہ ددرج کراؤ جن کو وہ ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اور ساتھ زبیر نیازی کو دو صفحوں کی درخواست بھی دی جس میں فوجی افسر، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا نام موجود تھا تو جناب زبیر نیازی پورے پروٹوکول کے ساتھ وزیر آباد سٹی پولیس اسٹیشن پہنچے اور تھانیدار کو کہا یہ ہے درخواست اور فوراً مقدمہ درج کرو تو تھانیدار نے اس جھرمٹ کی اچھی خاصی کلاس لے لی اور جب زبیر نیازی کا بس نہیں چلا تو انھو ں نے سرفراز چیمہ کو فون کیا لیکن انہوں نے فون ہی نہیں اٹھایا بار بار کال کرنے پر ان کے پی اے نے فون اٹھا کر بتایا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں، زبیر نیازی نے غصے میں عمران خان کو فون کر کے شکایت کی تو پھر انہوں نے عمر سرفراز چیمہ سے رابطہ کر کے کہا کہ زبیر نیازی کی کال پک کرو پھر تین گھنٹوں بعد عمر سرفراز چیمہ نے زبیر نیازی کی کال سنی، لیکن کال لیتے ہی زبیر نیازی نے ڈانٹنا شروع کر دیا یہ کیسی ہماری حکومت ہے اور تم کیسے مشیر داخلہ ہو جو ایک ایف آئی آرنہیں کٹواسکتے اور مجھے یہاں ذلیل ہونا پڑ رہا ہے فوراً استعفٰی دو ،گھر جاؤ اور لغویات بھی بکیںلیکن عمر سرفراز چیمہ سب کچھ سنتے رہے اور بولے مجھے بولے پانچ منٹ دیں میں کچھ کرتا ہوں اور پھر عمر سرفراز چیمہ لسی پی کر سوگئے ، پانچ گھنٹے تک زبیر نیا زی پو لیس اسٹیشن میں بیٹھے بیٹھے نامراد واپس ہولئے ۔

مزید پڑھیں:  سنہری موقع سے ذمہ داری کے ساتھ استفادے کی ضرورت