ہمیں سیاسی سے زیادہ معاشی مسائل نے گھیرا ہوا ہے

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے نے ملک کو افراتفری کا شکار کردیا ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تنا پہلے ہی قابو سے باہر ہورہا ہے۔ اس قسم کی پرتشدد کارروائی ناقابلِ قبول اور قابلِ مذمت ہے۔ ملک میں اس قسم کی کارروائی کو کسی صورت برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ اس ملک میں ویسے بھی سیاسی رہنماؤں کے قتل کی ایک دردناک تاریخ ہے، بے نظیر بھٹو کا قتل اب بھی قوم کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ عمران خان پر ہونے والے حملوں نے ان افراد کے خدشات کو درست ثابت کردیا جو خبردار کررہے تھے کہ کشیدہ سیاسی صورتحال تشدد کی جانب جارہی ہے۔ عمران خان تواتر کے ساتھ اپنی زندگی کو لاحق خطرات کا ذکر کررہے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے فوری انتخابات کے مطالبے کے حوالے سے لانگ مارچ کا آغاز کیا۔
گزشتہ ہفتے کے حملے کے بعد سے پی ٹی آئی کارکنان کے غم و غصے میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے کئی شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے،حملے میں زخمی ہونے کے بعد عمران خان نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم، وفاقی وزیرِ داخلہ اور ایک سینئر انٹیلی جنس افسر پر ان کے قتل کی سازش تیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ عمران خان نے ان الزامات کا کوئی ثبوت تو نہیں دیا، عمران خان کے الزامات کے جواب میں آئی ایس پی آر نے بھی سخت ردِعمل دیا اور انہیں فوج کے خلاف بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات قرار دیا، کم ہی لوگ اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ یہ کسی اکیلے شخص کا کام ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حملے میں ایک سے زیادہ حملہ آور ملوث تھے۔
وزیرآباد کی مقامی پولیس کی جانب سے حملہ آور کا اعترافی ویڈیو بیان بھی فوری جاری کیا گیا جس نے اس معاملے کو مزید الجھا دیا،عدم اتفاق کے اس دور میں قتل کی ایک سازش پر بھی سیاسی بنیاد پر ردِعمل دیا جا رہا تھا۔ پنجاب حکومت نے بھی اپنی نااہلی سے معاملے کو مزید خراب کردیا،جب تک سیاسی معاملات پرسکون نہیں ہوتے تب تک غیر جانبدارانہ طریقے سے معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ تحقیقات سے پہلے لگائے جانے والے الزامات سچ کی تلاش کو مشکل ہی بنائیں گے۔ ان بیانات سے ایک معمولی سی امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید سیاسی درجہ حرارت کچھ کم ہوگا۔ تاہم دونوں جانب سے جلد ہی سخت بیانات کا تبادلہ شروع ہوگیا جس نے سیاسی ماحول کو فوراً ہی مزید کشیدہ کردیا، وفاقی وزیرِ داخلہ کے بیانات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر سرخ لکیر پار کرنے اور قتل کی اس کوشش کو سیاسی رنگ دینے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے۔ سیاسی مباحث میں یا تو حفاظتی انتظامات کو نظر انداز کرنے پر عمران خان کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا یا پھر اتحادی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا اس افسوسناک واقعے نے ملک کو مزید تقسیم کا شکار کردیا ہے۔ اس طرح سات ماہ سے جاری سیاسی بحران کا حل مزید مشکل ہوگیا ہے۔
ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر3سال کی کم ترین سطح پر ہیں اور صرف6ہفتوں کی درآمدات کے لیے ہی کافی ہیں۔ دو ریٹنگ ایجنسیوں، موڈیز اور فنچ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کردی ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 30ارب ڈالر سے زیادہ کا لگایا گیا ہے اور اس وجہ سے ملک کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ دسمبر میں ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی پر مارکیٹ میں پریشانی پائی جاتی ہے۔ بانڈ بہت بڑی رعایت پر ٹریڈ کر رہے ہیں۔ حکومت کا اصرار ہے کہ اس نے ان کی ادائیگی اور مستقبل کی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے لیے مناسب وسائل فراہم کردیے ہیں۔
حکومت کے اعتماد کی وجہ یہ توقعات ہوسکتی ہیں کہ وہ قرضوں کی واپسی میں کچھ رعایت حاصل کرلے گی اور توانائی کی عالمی منڈیوں میں ہونے والے اتار چڑھاؤ میں بھی کچھ کمی آجائے گی۔ موجودہ صورتحال میں کورونا وباء کے اثرات اور یوکرین کے تنازع کے نتیجے میں سپلائی چین اور عالمی مالیاتی منڈیاں غیر مستحکم حالت ہیں۔
ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے عالمی سطح پر پاکستان کی غیر متوقع ہوتی پوزیشن کے اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ غیر یقینی صورتحال روپے کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ شرح مبادلہ پر بھی اثر انداز ہورہی ہے جس سے پہلے سے ہی بلند افراطِ زر میں اضافہ ہورہا ہے، اس کے علاوہ معاشی بحالی کے امکانات کا انحصار نجی سرمایہ کاری کی سطح پر ہے اور یہی ملک کی ترقی کے راستے اور پائیدار معاشی استحکام کا سب سے اہم اشارہ ہے۔ لیکن سیاسی غیر یقینی کی وجہ سے سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہیں۔ مزید سیاسی بدامنی کے خدشات سرمایہ کاروں کے جذبات پر اور مارکیٹ پر اثر انداز ہورہے ہیں، اگر موجودہ سیاسی مسائل جاری رہتے ہیں تو اس سے معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا، عوام کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا اور ملک کی حالت بدتر ہوجائے گی، پھر چاہے دوست ممالک سے مالی امداد آئے یا نہ آئے۔ بیرونی قرضوں پر ملک چلانے سے پاکستان کے اندرونی مسائل حل نہیں ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے