گرے لسٹ سے بچاؤ ناگزیر

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے 2008ء کے بعد سے پاکستان کو کئی بار اپنی مانیٹرنگ لسٹ میں رکھا ہے، جسے گرے لسٹ بھی کہتے ہیں، جن ممالک کے نام اس لسٹ میں شامل ہوں، وہ منی لانڈرنگ، دہشت گردوں کی مالی معاونت اور غیرقانونی سرگرمیوں کے لیے مالی اعانت کی روک تھام کی غرض سے اپنے ریگولیٹری نظام میں تذویراتی نوعیت کے نقائص کو دور کرنے کے لیے فیٹف کے ساتھ فعال انداز میںکام کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
21 اکتوبر 2022ء کو فیٹف کے اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ / دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام یقینی بنانے کے لیے اپنے نظام کو مضبوط کیا ہے، پاکستان نے نظام میں موجود ان تذویراتی خامیوں، جن کی فیٹف نے نشاندہی کی تھی، انہیں دور کرنے کے لیے ایکشن پلان کے اہداف کو مکمل کیا، اس ایکشن پلان میں مجموعی طور پر34 نکات شامل تھے، چنانچہ اہداف کی تکمیل پر پاکستان کو فیٹف کی نگرانی کی لسٹ یا گرے لسٹ سے نکال دیا گیا۔
تکنیکی لحاظ سے پاکستان نے فیٹف کی طرف سے دیئے گئے اہداف تو مکمل کر لیے ہیں تاہم، اب اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج مستقبل میں دوبارہ فیٹف گرے لسٹ میں جانے سے بچنا ہے، جہاں رپورٹ کرنے والے اداروں، جیسا کہ بینکوں کو مالیاتی مانیٹرنگ یونٹ کے پاس کسی بھی مبینہ منی لانڈرنگ یا دہشت گردوں کی مالی معاونت کی سرگرمی کے خلاف مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹس (STRs) جمع کرانا ہوتی ہے، تاہم پاکستان میں رپورٹنگ کرنے والے اداروں کی اکثریت صارف کی پس پردہ نگرانی ( Customer Due Diligence) اور صارف کی فراہم کردہ معلومات کی تصدیق (Know-Your Client ) جیسے اقدامات کے ذریعے حاصل کردہ صارف کے کوائف کا تجزیہ اور جائزہ لینے کے لیے دستی طریقہ کار کا استعمال کرتے ہیں، ان کوائف میں درستگی اور سچائی کے فقدان کا احتمال ہوتا ہے چنانچہ اس طریقہ پر تنقید بھی ہوتی ہے، پانامہ اور پنڈورا سکینڈلز سے یہ بات واضح ہوا ہے کہ مذکورہ بالا یعنی سی ڈی ڈی اور کے وائی سی جیسے ریگولیٹری اقدامات و نگرانی کے باوجود اربوں ڈالرکی غیرقانونی منتقلی ہوئی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضابطے یا ریگولیٹری تعمیل کے لیے محض خانوں کو ٹک کرنے جیسا سادہ عمل غیر قانونی مالیاتی منتقلیوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے۔
روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹس ( STRs ) تیار ہوتی ہیں لیکن جو رپورٹس ٹھوس نتائج کا باعث بنتی ہیں وہ مجموعی تعداد کے ایک فیصد سے بھی کم ہوتی ہیں، قانونی ماہرین اس بات سے متفق ہیں کہ مالیاتی جرائم کی روک تھام کے لیے محض مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹس کوئی حیثیت نہیں جب تک کہ ان کے ساتھ قابل تصدیق ثبوت موجود نہ ہوں، ثبوت کے بغیر ان رپورٹس کا معیار قانونی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتا، یہ اسی صورت ممکن ہے جب ٹیکنالوجی پر مبنی طریقے یعنی مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل آلات کو بروئے کار لایا جائے، اس سے نہ صرف مشکوک سرگرمیوں کی چھان بین اور نگرانی کے عمل میں بہتری آئے گی، بلکہ اس سے عدالتوں میںمشکوک ٹرانزیکشن کے مستند ثبوت پیش کئے جا سکیں گے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ان ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس کی حوصلہ افزائی کرے جو ایسے موزوں ڈیجیٹل حل یا طریقے فراہم او ررپورٹنگ اور نگرانی کے عمل کو ہموار کرنے کے لیے متعدد تکنیکی خصوصیات کو مربوط کر سکتے ہوں ۔
دوسرا، قانو ن نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی کوششیں تیز کرنے اور مستعد اور فعال تحقیقاتی ٹیمیں بنانے کی ضرورت ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام، کاروبار، فراڈ اور سائبر کرائم کے ماہرین، ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والے اور مالیاتی ماہرین پر مشتمل ہوں، وہ دن گزر گئے جب تفتیش کا انحصار افراد پر ہوتا تھا، اب کامیابی ٹیکنالوجی کی مدد سے کی جانے والی ایسی تحقیقات میں مضمر ہے جس کی سربراہی متعلقہ شعبے کے ماہرین کی ٹیم کرے ۔
آخر میں، منی لانڈرنگ جیسی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لئے رپورٹنگ اورقانون نافذ کرنے والے ادارے ایسی فضا میں مؤثر انداز میں کام نہیں کر سکتے جہاں ان کے درمیان عدم اعتماد موجو د ہو، چنانچہ تمام شراکت داروں کے درمیان قابل اعتماد اور مستند معلومات کا تبادلہ اور تحقیقاتی مقاصد کے لیے تعاون ناگزیر ہے، رپورٹ کرنے والے اداروں کو ممنوعہ سرگرمیوں کے بارے میں قابل تصدیق معلومات فراہم کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔
پاکستان کے گرے لسٹ میں شامل ہونے سے پہلے ہی اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی اور اس کے اداروں کی ساکھ کوبھی نقصان پہنچا، فیٹف کے خدشات نے آئی ایم ایف پروگرام کو بھی متاثر کیا تھا، حالیہ 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری کے لئے ایک شرط فیٹف کے اہداف کی تعمیل کی بھی تھی، چنانچہ اب یہ ضروری ہے کہ گرے لسٹ کا ماضی کا تجربہ دہرایا نہ جائے۔  ( بشکریہ، ڈان ، ترجمہ : راشد عباسی )

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی