قومی معیشت کے” گورباچوف”

پاکستان آج معیشت کے جس بحران اور دلدل کاسامنا کر رہا ہے یہ حادثہ یکایک اور آنِ واحد میں رونما نہیں ہوا۔ملکی معیشت کی گاڑی کا کانٹا بہت پہلے بدل گیا ہوگا جس کے باعث گاڑی زوال اور بربادی کی پٹٹری پر دوڑتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ آج معیشت کا ٹائی ٹینک ڈوب جانے کے قریب تر ہے بلکہ اس کا ایک حصہ پانیوں میں ڈوب گیا ہے ۔اس وقت ملک میں بحث اس بات پر نہیں ہورہی کہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہوگا یا نہیں بلکہ اب بحث اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے یا نہیں ۔معاشی ماہرین کی ایک بڑی تعداد کا اصرار ہے کہ ملک ٹیکنیکل طورپر دیوالیہ ہوچکا ہے رسمی اعلان کرنا باقی ہے ۔مسیحائے معیشت اسحاق ڈار کا زور کلام اب اس بات پر صرف ہونے لگا ہے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوا ایسی باتیں غلط اور بے بنیاد ہیں ۔سردجنگ کے خاتمے کے بعد ہی پاکستان میں یہ آوازیں اُٹھنا شروع ہوئیں کہ سوویت یونین کے انجام کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے حکمران طبقات معیشت پر توجہ دیں ۔یہ وہ وقت تھا جب سوویت یونین پندرہ یوگوسلاویہ آٹھ چیکو سلاویہ چار بوسنیاہرزوگوینا دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور قریب ہی دوحصوں میں منقسم مشرقی اور مغربی جرمنی دیوار برلن کو گرا کر ایک ہو چکے تھے ۔اس اتھل پتھل کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ہلاکو اور چنگیز اور سکندر اعظم کی فوجیں داخل ہو کر سب کچھ روند کر گزر چکی تھیں نہ یہ تھی کہ ان کے اسلحہ خانے خالی اور ان کی جنگی صلاحیت ختم ہو چکی تھی ۔سوویت یونین اور اس کے ہم خیال ملکوں کے اسلحہ خانے بھرے تھے اور دنیا کے جدید ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کے انبار تھے مگر ان کی بیکریوں میں ڈبل روٹی ختم تھی اور ان کی بیکریوں کے آگے انسانوں کی طویل قطار یں تھیں۔معیشت کے زوال نے ان ملکوں کو توڑ پھوڑ کا شکار بنا دیا تھا ۔جرمنی کے دوحصوں میں معاشی عدم توازن واضح تھی ۔مغربی جرمنی جو یورپ کا ساتھی تھا خوش حال اور مستحکم تھا اور مشرقی جرمنی جو سوویت یو نین کا اتحادی تھا ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا تھا اور یہ فرق ایک چھوٹی سی دیوار کے دو اطراف میں نمایاں تھا ۔اسی وقت سے پاکستانی میڈیا میں ہوش وخرد رکھنے والے لوگ حکمران طبقات اور منصوبہ سازوں کو یہ بتاتے رہے کہ سوویت یونین کے انجام سے سبق سیکھ کر ملکی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کریں اور ملک وقوم کو آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر نہ کریں مگر مجال ہے کسی نے اس آواز کو سنا اور سن کر عمل کیا ہو۔ سوویت یونین کے انجام سے جن ملکوں نے سبق سیکھ کر اپنی معاشی پالیسیوں کو درست راستے پر استوار کیا ان میں بھارت اور چین بھی شامل ہیں ۔بھارت نے مغرب کے لئے بند اپنی منڈیوں کو کھول دیا مگر اس سے پہلے انہوںنے اپنے اندر مسابقت کی سکت اور طاقت پیدا کی ۔ایسا نہیں ہوا کہ منڈیاں کھولتے ہی انہوں نے اپنے کارخانوں کو تالے لگا کر خود کوئی چیز تیار کرنے کے کام سے توبہ کرلی ہو ۔پاکستان نوے کی دہائی میں یہی کام کر چکا ہے جب چینی مصنوعات کے لئے منڈیاں کھول دی گئیں تو پاکستانیوں نے اپنی صنعت کا پہیہ روک کر باہر سے آنے والے کنٹینروں کا انتظار شروع کر دیا ۔نوے اور دوہزار کی دہائیاں سیاسی لڑائیوں اور بدترین کرپشن اور قرض در قرض کی نذر ہو گئیں ۔ یہی وہ دور تھا جب باہر سے معیشت کے نیم حکیم بلا کر نئے تجربات کرنے کا عمل جاری رہا ۔یہاں تک ایسے غیر ملکی شہریت کے حامل دو نیم حکیم معین قریشی اور شوکت عزیز پاکستان کے اعلیٰ ترین حکومتی منصب پر فائز ہوئے ۔اس پورے قصۂ درد میں ہر حکیم معیشت کا گورباچوف نظر آتا ہے جو اس کی تجہیز وتکفین کے عمل کو قریب اور آسان بناتا ہے ۔گورباچوف سوویت یونین کے وہ آخری حکمران تھے جس نے سوویت یونین کے وجود سے ریاستوں کا بھاری بھرکم بوجھ اُتارنے کا عمل منطقی انجام تک پہنچایا تھا اور ان کا نام قوموں اور اداروں کے آخری زوال کو باوقاراور آسان بنانے کا استعارہ بن کر رہ گیا تھا ۔ اسی دور میں پاکستان کے حکمران طبقات کی دولت کے غیر ملکوں میں انبا رلگتے چلے گئے ۔حکمرانوں کی دیکھا دیکھی نیچے کے تمام بااثر لوگوں نے ملک کا سرمایہ حیلوں بہانوں سے بیرون ملکوں میں منتقل کرنا شروع کیا اور وہ باہر سے محض حکومت کرنے یا افسری کی دھاک بٹھانے پاکستان آتے رہے۔مغربی ملکوں کو سرمائے اور افرادی قوت دونوں مل رہے تھے انہوںنے پاکستانیوں کو شہریت بھی دی اور کالے دھن کو خندہ پیشانی سے قبول بھی کیا ۔یہاں تک کہ ملک کی رگوں کا خون خشک ہوتاچلا گیا اور یہ خون مغربی اور یورپی ملکوں اور بینکوں میں جا کر دوڑتا رہا ۔ایسے میںامریکہ کو لینڈ آف اپر ٹیونٹیز یعنی مواقع کی سرزمین کہنا بے جا تھا مواقع کی حقیقی سرزمین تو پاکستان بن گیا ۔حکومت کرو افسری چمکائو اور باہر سدھار جائو۔اسی کو مشاہد حسین سید ”لٹو تے پھٹو”کا پنجابی ٹچ دیتے تھے ۔اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے والا اول تو کوئی تھا ہی نہیں اگر کوئی تھا بھی تو اس کی آواز کمزور تھی اور اس کی گرفت میں قوت نہیں تھی ۔طاقتور لوگ میڈیا کا کامیاب استعمال کرکے اسے معاشرے میں طعن واستہزا کا نشانہ بنا کر اس آواز کو غیر موثر بناتے تھے ۔نوے کی دہائی میں حکمران طبقات کی کرپشن کے خلاف بلند ہونے والی قاضی حسین احمد اور ڈاکٹر طاہر القادری کی آوازوں کو اسی ٹیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ناکام اور غیرموثربنایا گیا ۔ اس صف میں ان کے بعد آنے والے عمران خان سخت جان ثابت ہوئے جو آج تک میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ یوں معیشت کا زوال بڑھتا چلا گیا اور آج پاکستان دیوالیہ پن کے کنارے پر کھڑا ہے ۔ عالم یہ ہے کہ موجودہ بحران کا حل کسی کے پاس دکھائی نہیں دیتا ۔سب اس انتظار میں ہیں کہ الہٰ دین کا چراغ ہاتھ لگے جسے رگڑتے ہی خزانہ بھر جائے مگر عملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایسے لمحوں کے لئے کہا گیا ہے ۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟