مشرقیات

کس نے کہا تھاپیالی میں طوفان اٹھانے کو ؟کبھی پارلیمنٹ اور اس کے ارکان پر معاملے کو کیوں نہیں چھوڑا گیا۔تاریخ سے بھی ہم نے سبق نہیں لیا۔ہزاروں شہریوں اور جوانوں کی جان گئی۔اربوں ڈالر کا نقصان ہوا تاہم پھر بھی ہم اچھے اور برے کی تمیز کا آموختہ سناکر خود کو تسلی دیتے رہے اور احمقوں کی اس جنت کا حال اب سب پر طشت ازبام ہوگیا ہے۔ہے کوئی ان کا وکیل اب بھی جو یہ کہیے کہ لر او بر والے ایک نہیں ہیں دونوں میں اچھے برے کا فرق ہے۔کبھی روس تو کبھی بھارت کاراستہ روکنے کے لیے ہم خود کو کارناموں پر اکساتے رہے اب سب مان رہے ہیں کہ روس کا راستہ روکنا یا اسے گرم پانیوں تک رسائی سے روکنے کے لیے ہم نے اپنے مفادات کو سات سمندر پار بیٹھے انکل سام کے مفادات کی بھینٹ چڑھایا تھا۔پاکستان تب ہی افغانستان کے معاملے میں تباہی کا شکار ہونا شروع ہوگیاتھا جب ہم نے روس کی شکست کا خواب دیکھنے کے لیے یہاں وہاںکے محراب ومنبر کو جہاد کے لیے استعمال کرتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے رات دن ایک کر لیے تھے۔ہمیں اس جنگ میں کودنے کے فوری بعد کلاشنکوف بھی ہاتھ آئی تھی اور ہماری منڈیوں میں منشیات کی وہ ریل پیل بھی ہو گئی تھی جس نے ایک نسل کونہیں آنے والے نسلوں کو بھی تباہ کرنے کا سنگ بنیاد رکھا۔ایک طرف کلاشنکوف کے ہاتھوں ہم اپنے ہاں مسلح جتھوں کی پرورش کرتے رہے تودوسری طرف منشیات کے کھلے عام کاروبار سے بھی چشم پوشی کرتے ہوئے اپنی نسلوںکو تباہ کرلیا۔اب دیکھ لیں وطن عزیز میں دونوں تباہ کن ہتھیاروں کی کارستانی اور ساتھ ہی جس لاقانونیت کو ہم فروغ دیتے رہے اس کی من مانی کے سامنے بند باندھنے کی تمام کوششیں فی الحال ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔دھونس دھمکی، آپریشن اور حتیٰ کہ مذاکرات تک تمام کوششیں رنگ نہیں لائیں۔اب یہ سبق سب کو یاد رکھنا ہے کہ اپنے ہاں کے لوگوں کو ان کی بہادری کے قصے سنا کر ایک عرصے تک ان کی بیرونی طاقتوں کے مفادات کے لیے آبیاری کی پالیسی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ثابت ہوئی ہے۔لشکروں کی تشکیل کرکے پرایا ایجنڈا پورا کر لیاگیااب ان لشکروں کا کیا کرنا ہے کوئی نہیں جانتا۔ہماری پالیسیوں میں کیا نقائص تھے اس بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ان سے جان چھڑانے کے لیے اب ضروری ہے کہ ریاستی ادارے ایک حکومت کے تابع فرمان بروئے کار آئیں۔اپنی مرضی یا بغیر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے کوئی فیصلہ کتنا پائیدار ہوتا ہے اس کا نظارہ ہم کر رہے ہیں۔سوات میں ہونے والے احتجاج کو بھی دیکھ لیںاور صوبے کے طول وعرض میں ہونے والے شرپسندوں کے حملوں کو بھی نظر میں رکھیں تو ایک ہی سبق ملتا ہے کہ سیکیورٹی کا معاملہ ہو یا کوئی بھی سرکاری پالیسی اس پر سوچ بچار کرکے ہی آگے بڑھنا چاہئے اجتماعی دانش کو بروئے کار لائیں تو کوئی حل نکل آئے گا۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے