مشتری ہوشیار باش

امریکا نے کہا ہے کہ پاکستان کو طالبان کے خطرے کے خلاف دفاع کا حق حاصل ہے وائٹ ہائوس میں امریکی قومی سلامتی کے امورکے رابطہ کار جان کربی نے امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو ٹی ٹی پی سے خطرات لاحق ہیں، حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں تشدد کے واقعات دیکھے گئے ، جان کربی کا مزید کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے، پاکستان کے دہشت گردوں کے پیچھے جانے کے فیصلے کا بھی احترام کرے گا، پاکستان کی جانب سے افغانستان میں ممکنہ کارروائی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ٹی ٹی پی سے خطرہ ہے اورپاکستانی عوام اور حکومت کو اس خطرے کے خلاف دفاع کا حق حاصل ہے، امریکی قومی سلامتی کے رابطہ کار کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے بیچ علاقے میں اس طرح کے گروپوں کی اب بھی کچھ محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں، اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں اس بارے میں پاکستان سے رابطے میں رہیں گے، جہاں تک پاکستان کی خود مختاری اور امن کا تعلق ہے صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے کسی بھی ملک کے خلاف کسی بھی پرتشدد کارروائی کی حمایت اخلاقی اور اصولی طور پر نہیں کی جا سکتی، اس لئے امریکی موقف پر اظہار اطمینان کیا جا سکتا ہے، اس حوالے سے حالیہ سانحہ پشاور کے بعد جس میں پولیس لائن کی مسجد میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں لا تعداد اموات اور زخمیوں کی خبر نے سکیورٹی کے حوالے سے سوال اٹھائے، دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ کیا گیا۔ اگرچہ افغان حکام دہشت گردی کے واقعات میں ملوث گروپوں کی کسی نہ کسی طور سہولت کاری نہ صرف افغانستان سے ہوتی ہے بلکہ اس میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را بھی پوری طرح ملوث ہے اور جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو اس کے را سے روابط بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے دوران جس طرح افغانستان جیسے چھوٹے ملک کے مختلف مقامات پر بھارتی قونصل خانوں کا جال بچھا کر وہاں کالعدم طالبان تنظیموں کو نہ صرف دہشت گردی کی تربیت دی جاتی تھی بلکہ ان کی ہر قسم کی امداد کر کے جنگی ساز و سامان اور رقوم فراہم کی جاتی تھیں، ان سے بھی امریکا پوری طرح واقف تھا لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے تزویراتی ساتھی بھارت کے ہاتھ روکنے کی کوشش کبھی نہیں کی، حالانکہ خود امریکا کو افغانستان کے طول و عرض میں طالبان تحریک کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا تھا جس کے نتیجے میں اسے بالآخر شکست سے دوچار ہو کر بے نیل و مرام واپسی پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اپنی اس ہزیمت کا بدلہ لینے کیلئے وہ اب پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، اس لئے ہمارے پالیسی سازوں کو اپنی سلامتی کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہئے اور امریکی ہلا شیری میں پوشیدہ خطرات کو بھانپ کر نپے تلے انداز میں آگے بڑھنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا المیہ