کاش یہ اتنا آسان ہوتا

وزیراعظم شہباز شریف نے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف بے رحمانہ قانونی کارروائی کی ہدایت کردی ہے۔ وزیراعظم نے اعلیٰ سطحی اجلاس میں وفاق اور صوبوں میں ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دیتے ہوئے کہا کہ منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور زائد نرخ لینے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ شہباز شریف نے کہا کہ رمضان المبارک سے قبل گوداموں، دکانوں اور منڈیوں میں آپریشن کلین اپ کیا جائے ، سیلاب، معاشی مشکلات میں پھنسی عوام سے رمضان میں جو زائد قیمت لے، اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں ۔ علاوہ ازیں وزیراعظم نے وفاقی حکومت کو وزرائے اعلیٰ کے ساتھ مل کر رمضان میں اشیاء کی فراوانی اور قیمتوں پر کنٹرول کا ٹاسک دیا اور ہدایت دی کہ عبادتوں کے مہینے میں جو روزے داروں کو تنگ کرے’ اسے قانون کی طاقت سے سبق سکھائیں ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اشیاء کی طلب’ رسد اور قیمتوں میں گڑ بڑ ہوئی تو متعلقہ علاقوں کے افسران کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وزیراعظم شہباز شریف کو بریفنگ دی گئی کہ ملک میں گندم سمیت اشیائے خور و نوش کی کہیں بھی کوئی قلت نہیں ہے۔ جس پر وزیراعظم اجلاس میں حکام پر برس پڑے اور کہا کہ خوراک کی کمی نہیں تو پھر مرغی کی قیمت میں اضافہ کیوں؟ بعد ازاں شہباز شریف نے ہدایت دی کہ ملک بھر میں یوٹیلٹی سٹور ز پر معیاری اشیاء کی فراہمی یقینی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان بازار میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے۔وزیر اعظم نے جو دل خوش کن ہدایات جاری کی ہیں اور جس طرح کے اقدامات کاحکم دیا ہے اگرمعاملات احکامات کے اجراء سے حل ہونے والے ہوتے تو یہ پہلے وزیر اعظم نہیں جنہوں نے اس قسم کی ہدایت جاری کی ہے ان سے قبل اس عہدے پر فائز تقریباً ہر وزیر اعظم کی خواہش رہی ہے کہ وہ عوامی مشکلات میں کمی لاسکیں اور خاص طور پر مہنگائی پر قابوپایا جاسکے مگر ہر بار اے بسا آرزو کہ خاک شد کی صورتحال ہوتی ہے بنا بریں اس اجلاس اور ہدایات سے زیادہ توقعات کی وابستگی خوش امید ی کے زمرے میں آئے گا ۔وزیر اعظم شہباز شریف وہ شخصیت بھی نہ رہے جس کے حسن انتظام اور احکامات پرعملدرآمد کی کبھی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب دھوم ہوا کرتی تھی مہنگائی پر قابوپانے کے لئے حکومت کے اقدامات کی سنجیدگی پر تو سوال نہیں لیکن ایک لاینحل مسئلے جس طرح کا حل نکالنے کی سعی ہو رہی ہے وہ کارگر نظر نہیں آتا اجلاس میں مہنگائی پر قابوپانے کے لئے سخت اقدامات کا حکم جاری کرنے سے قبل اگراس کی وجوہات کا جائزہ لیاجاتا اور ان عوامل کا جائزہ لیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا یہ الگ بات ہے کہ اس کے باوجود بھی حکومت کو بہرحال تہی دست ہونے کا احساس ہونا ہی تھا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ‘ڈالر کی قدر کے سامنے روپے کی بے قدری بجلی و گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کساد بازاری اور افراط زر جیسی وجوہات کے سامنے حکومت یا تو خود بھی بے بس ہے یا پھر حکومت اس کی ذمہ دار ہے اگر قراردیا جائے کہ مہنگائی کی بہت بڑی وجہ خود حکومتی فیصلے ہیں تو غلط نہ ہوگا اس لئے حکومت کے ہر فیصلے کے بعد اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے وزیر اعظم کے اس اجلاس میں برہمی بھی عجیب سی بات اس لئے ہے کہ وہ خود مہنگائی میں اضافہ کاعندیہ دے چکے ہیں اس کے بعد مہنگائی میں کمی لانے کے لئے حکام کوہدایات چہ معنی دارد۔مہنگائی کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ ملک میں عدم استحکام بھی ہے مستزاد آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے کرتے قوم زندہ در گور ہونے کو ہے ایسی صورتحال میں بہتری کی توقع ہی اس لئے عبث ہے کہ ہر کسی کا یہ تجربہ و مشاہدہ ہے کہ صورتحال مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی کامصداق ہی رہتا ہے متعلقہ حکام چاہے کتنے بھی سخت اقدامات کریں ان کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے بنا بریں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد دیکھا جائے تو حکام کے پاس ذخیرہ اندوزی کی روک تھام اور ناجائز منافع خوری اور سرکاری نرخنامے کی پابندی کا رہ جاتا ہے مگر جب نانبائی سے لے کر مرغی فروش تک کوئی بھی جائز منافع پرکاروبار کرنے کو تیار نہیں جو سرکاری عملداری کی حقیقت کھولنے کے لئے کافی ہے اس ساری صورتحال میں وزیر اعظم کے احکامات کی لاج رکھنے کا تقاضا ہے کہ ذخیرہ اندوزی ناجائز منافع خوری کی روک تھام کے لئے سنجیدہ اقدامات میں انتظامیہ کامیاب ہوئی تو غنیمت ہوگی اور توجہ بھی ناجائز منافع خوری کی سختی سے روک تھام پر دی جانی چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن