کھلواڑ

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کی ایڈوائس واپس لینیسے قانونی طور پر مقدمے کو آگے بڑھانے کی راہ تو نکل آئی لیکن جس انداز میں صدر نے ایڈوائس دی تھی اس سے اس بات کو تقویت ملی کہ وطن عزیز میں آئین اور قانون کی پاسداری اور حلف کی پابندی کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ صدر مملکت کا کہنا ہے کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی تو صوبے میں انتخابات کی تاریخ دینا بھی گورنر ہی کا اختیار ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اب تک صدر مملکت نے کے پی کی حد تک ایڈوائس واپس کیوں نہیں لی؟ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ صدر مملکت جلد ایڈوائس واپس لیں گے۔ صدر کے وکیل نے اعتراف کیا کہ صدر کے پاس کے پی میں انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا۔چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی کے مصداق صدارت کے باوقار عہدے پر فائز شخصیت نے جس طرح کے اقدامات بلا سوچے سمجھے ایڈوائس جاری کرکے نہ صرف ایوان صدر کو شرمسار کیا بلکہ انہوں نے صدر پاکستان کی بجائے تحریک ا نصاف کے ایک کارکن اور حکم کی تعمیل کرنے والے کے طور پراپنی حیثیت کے وقار کوبھی دائو پر لگایا صدر مملکت کی یہ پہلی غلطی نہیں جس سے ان کو پیچھے ہٹنا پڑا ہے بلکہ اس سے قبل جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر دستخط کی وہ ایسی غلطی کر چکے ہیں جس میں بالاخر نہ صرف رجوع کرنا پڑا بلکہ ملکی عدلیہ اور ملک میں ا نصاف کے نظام کواس ریفرنس کی سماعت اور جسٹس فائز عسیٰ کی اہلیہ کو جس طرح اس دوران ہراساں کیاگیا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں ایک صاحبزادی کو اپنے بیمارو الد کی عیادت کی ذمہ داری درپیش تھی چونکہ اس وقت تحریک انصاف کا طوطی بولتا تھا اس لئے گو کہ وقتی طور پر وہ معاملہ دب گیا مگر راکھ میں دبی چنگاری ابھی بھی کہیں نہ کہیں سلگ رہی ہوگی اصولی طور پر ایک باوقار عہدے پر متمکن شخص کے خلاف اس وقت مواخذے کی تحریک کی ضرورت تھی ایک مرتبہ پھر آئین اور دستور سے کھلواڑ کے بعد تو آئین کی سنگین خلاف ورزی کا الزام صدر کے دامن کو داغدار کرنے کا باعث بنا صدر کا عہدہ کوئی ایسا منصب نہیں جہاں پر فائز شخص کو قانونی مشاورت اور آئینی باریکیوں کو سمجھانے والا کوئی نہیں لیکن اگر صدر کے عہدہ جلیلہ پرفائز شخص خود ہی نہ سمجھنا چاہے تو مشکل کا آغاز یہیں سے ہوجاتا ہے ۔صدرمملکت عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اسمبلیوں کی تحلیل کی بھی جان بوجھ کر غلطی کر چکے ہیں اس طرح کے شخص کو کیا صدر مملکت جیسے عہدے پر فائز ہونے کا اخلاقی جواز ہے سپیکر ‘ چیئرمین سینٹ صدر مملکت سمیت وہ تمام عہدے جن کا حلف لیا جاتا ہے اس امر کے متقاضی ہوتے ہیں کہ ان عہدوں پر فائز شخص غیر جانبداری اور ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دے اور اگر وہ کسی سنگین اور صریح غلطی کا ارتکاب کرتا ہے اور وہ بھی اس سطح کی غلطی کہ خود ان کا وکیل عدالت میں غلطی کا اعتراف کرکے ریفرنس کی واپسی کی یقین دہانی کرائے اخلاقی طور پر صدر کو اس اعتراف سے قبل ہی مستعفی ہو جانا چاہئے تھا صدر پاکستان کا عہدہ ایک وقار کی علامت اور ریاست کے علامتی سربراہ کا ہوتا ہے جس کا تقاضا اور یہ ان کے حلف کا حصہ ہے کہ وہ مکمل غیر جانبداری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے محولہ ٹھوس شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچنا مشکل کام نہیں کہ صدر اختیارات کے غلط استعمال کے مرتکب ہوئے اور ایسا ان کی جانب سے سہواً نہیں عمداً ہوا ہے جس کے بعد ان کے اس عہدے پر رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ بطور سربراہ ریاست ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اصلاح اور ملک میں سیاسی استحکام کے حامل اقدامات کی سعی کرتے انہوں نے الٹا شعلوں کو ہوا دینے کا کام کیا معاملہ عدالت میں چلاگیا اور ریفرنس کوواپس لینے کی ضرورت پیش آئی ان کے ریفرنس کو اجراء کے وقت ہی پرکاہ کی حیثیت نہ دی گئی اور ماہرین نے اسے حد سے تجاوز قرار دیا تھا لیکن بہرحال کھیلنے والوں کو تو کھیلنے کے لئے ایک بہانہ وقتی طور پر ہی سہی میسر آگیاتھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے صدر کو تھوڑی دیر کے لئے یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں اور ان کے اس اقدام کے مضمرات اور اثرات کیا نکلیں گے ۔ اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ وطن عزیز کے انتظامی اور آئینی عہدوں پر فائز افراد اپنے حلف کا بھی پاس نہیں رکھتے اور وہ سراسر جانبداری برتتے ہیں جو تنازعات کا ہی باعث نہیں بنتا بلکہ اس سے ملک و قوم کی بھی جگ ہنسائی ہوتی ہے صدر علوی نے صدارت کے منصب کو جس انداز میں بے وقعت کیا اس کا تذکرہ تاریخ میں اچھے الفاظ میں نہیں کیا جائے گا بہتر ہے کہ اس اعتراف حقیقت کے بعد صدر مستعفی ہو کر باوقار طریقے سے رخصت ہوں دوسری کوئی صورت اور راستہ نظر نہیں آتا کہ وہ اس غلطی کا ازالہ کر پائیں۔

مزید پڑھیں:  سمت درست کرنے کا وقت