وکلاء کی ہڑتال۔۔۔ قابل غور!

سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججز کی تقرری میں پشاور ہائیکورٹ کے ججز کو نظر انداز کرنے کے خلاف وکلاء نے احتجاجاً صوبہ بھر کی عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے جس کے باعث بیشتر مقدمات کی پیش رفت متاثر ہوئی اور سائلین کونئی تاریخیں تھما دی گئیں ‘ خیبر پختونخوا بار کونسل نے بدھ کے روز عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جس کے باعث گزشتہ روز وکلاء پشاور ہائیکورٹ سمیت صوبہ بھر میں کسی عدالت میں مقدمات کی پیروی کے لئے پیش نہیں ہوئے’ بار کونسل کے مطابق سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری میں خیبر پختونخوا کو نظرانداز کیاجارہا ہے’ 2017ء سے پشاور ہائیکورٹ کے کسی جج کو سپریم کورٹ میں تعینات نہیں کیا گیا جبکہ سینیاری کے لحاظ سے یہاں کے ججز بھی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا حق رکھتے ہیں، سپریم کورٹ میں اس وقت خیبر پختونخوا سے صرف ایک جج ہے حالانکہ تمام صوبوں سے برابری کی بنیاد پر نمائندگی ہونی چاہئے ۔ بار کونسل کے مطابق مرحوم چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی درخواست اب تک سپریم کورٹ میں زیرالتواء ہے، بار کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ اس حوالے سے جلد از جلد جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرکے پشاور ہائیکورٹ سے سینئر ججز کو ایلویٹ کیا جائے جہاں تک خیبر پختونخوا بار کونسل کے مطالبے کا تعلق ہے یہ بالکل درست مطالبہ اور آئینی تقاضوں کے عین مطابق ہے’ یہ صورتحال بہت ہی چشم کشا ہے کہ اس وقت خیبرپختونخوا سے سپریم کورٹ میں صرف ایک جج موجود ہے حالانکہ بار کونسل کے موقف کے مطابق ہر صوبے سے برابری کی بنیاد پر تعیناتیاں لازمی ہیں’ حیرت زاء امر یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ میں تعیناتیوں پر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں پہلے مرحلے میں جن جونیئر ججوں کو انڈیکٹ کرنے کی کوشش کی گئی اسے حکومتی حکمت عملی نے ناکام بنا دیا تھا مگر کچھ ہی عرصے بعد نہ جانے درون خانہ کیا”سمجھوتہ” ہوا کہ ان میں سے کچھ جونیئرز پر اعتراضات کے باوجود سپریم کورٹ کا جج بنانے میں دلچسپی رکھنے والے حلقے کامیاب ہو گئے ‘ اس وقت بھی خیبر پختونخوا کے نسبتاً سینئر ججز کو مکمل طور پرنظرانداز کر دیاگیا تھا ‘ حالانکہ یہی وہ مناسب وقت تھا کہ خیبر پختونخوا بار کونسل موثر آواز اٹھا کر اس سلسلے میں صوبے کے حق کے حصول پر ڈٹ جاتی بہرحال یہ صورتحال کسی بھی طور قابل قبول قرار نہیں دی جا سکتی اور صوبے کو ججز کی تقرری میں اپنا جائز حق ملنا چاہئے جبکہ ہم بار کونسل سے بھی ایک گزارش کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اگر وہ عدالتوں کے بائیکاٹ کے بجائے ٹوکن ہڑتال سے کام چلاتے ہوئے سیاہ پٹیاں باندھ کر اپنے مطالبات کو سامنے لاتے تو اس سے ہزاروں سائلین کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا ‘ کیونکہ اعلیٰ عدالتوں میں پہلے ہی ہزارہا مقدمات زیرالتواء ہیں اور ان کا نمبر بڑی مشکل سے آتا ہے اور ایک دفعہ کسی مقدمے کی پیشی نہ ہو پائے تو پھر مہینوں انتظار کرنے پر سائلین مجبور ہوتے ہیں جس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں:  بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا المیہ