اپنا اپنا موقف ‘ قانونی موشگافیاں

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے ازخودنوٹس کافیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جوحکم دیا ہے اس پر تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے مابین ایک بار پھراپنے اپنے موقف کی صورتحال سامنے آرہی ہے ‘وفاقی وزیر قانون نے اس فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں نظرثانی کی درخواست دینے اور ریویو میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ فیصلہ تین دوسے نہیں بلکہ پانچ تین سے حکومت کے حق میں آیا ہے’ کیونکہ بقول وزیر قانون جن دو جج صاحبان کوبنچ سے علیحدہ کیاگیا تھا انہوں نے پہلے ہی اس پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے ازخود نوٹس کو غلط قرار دیا تھا جبکہ ان کے موقف کو فٹ نوٹ میں بھی شامل کیا جا چکا ہے ‘ تاہم تحریک انصاف نے اسے تین دو کا فیصلہ سمجھتے ہوئے اسے آئین کی جیت سے تشریح دی ہے’ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے احکامات پرمن و عن عمل درآمد کا فیصلہ کرتے ہوئے صدرمملکت اور گورنر خیبر پختونخوا کوخط لکھ دینے کا عندیہ دیا ہے جس پر ممکن ہے کہ ان سطور کے شائع ہونے تک عمل درآمد ہوبھی چکا ہو’ الیکشن کمیشن حکام کے مطابق انتخابی شیڈول 54 دن پرمحیط ہے اور انتخابات کی ممکنہ تاریخ عید الفطر کے بعد دی جا چکی ہے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صدرمملکت کی جانب سے خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ دینے کے اقدام کوکالعدم قرار دیا’ ادھر اس فیصلے کے بعد قانونی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور مجموعی طور پراس فیصلے کو مبہم قرار دیا جارہا ہے’ یہاں ایک خاص نکتہ یہی ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے جو رائے دی کہ معاملہ ہائی کورٹ میں پہلے سے زیر سماعت تھا اس لئے اس پر از خود نہیں لیا جا سکتا ‘ ان تمام حالات کی روشنی میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ صورتحال اب بھی زیادہ واضح نہیں ہے اور ابہام کی کیفیت کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا ‘ خیر یہ تو قانونی موشگافیاں ہیں اور ان کی وضاحت آئینی اور قانونی ماہرین ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ ان احکامات پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کا ہے’ اس سے پہلے کہ ان حالات کی نشاندگی کی جائے جو سپریم کورٹ کے فیصلے پرکسی حتمی نتیجہ تک پہنچ کر اسے عملی صورت دی جائے’ سب سے پہلا سوال ملک میں ڈیجیٹل مردم شماری اور خانہ شماری کا سامنے ہے جس کے لئے اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں اور اس پر ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ سے دو مہینے یا کچھ زیادہ بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ گزشتہ مردم شماری پر کئی حلقوں کے اعتراض پہلے ہی موجود ہیں’ چونکہ خانہ شماری اور مردم شماری کے بعد ہی قومی وسائل کی تقسیم کا مرحلہ طے ہونا ہے اور بعض حلقوں کویہ شکایت ہے کہ ماضی میں اس حوالے سے ان کے ساتھ زیادتی روا رکھی گئی ہے جس سے ملکی وسائل کے ساتھ ساتھ پارلیمان میں ان کی آبادی کے مطابق ان کی نمائندگی نہیں ہوسکی اس لئے جب تک نئی مردم شماری نہ ہو ‘ ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں بلکہ اس کی بنیاد ہی غیر منصفانہ ہوگی’ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں بھی لازمی ہوتی ہے اور ان دونوں مراحل یعنی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھنے کے بعد امکانات کو بھی رد نہیں کیاجاسکتا ‘ اگر اس سلسلے کو موقوف کرکے پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے گئے تو ان کے نتائج کو تسلیم کرنے کے لئے بھی کچھ حلقے تیار نہیں ہوں گے اور ایک نئی قانونی مبارزت کا آغاز ہو جائے گا ‘ بفرض محال ایسا نہ بھی ہوا تو بھی ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ ملک میں عام انتخابات سے صرف دو تین مہینے پہلے دو صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات پر بھاری اخراجات کا بوجھ قومی خزانے پر ڈال دیا جائے اور پھر دو چار مہینے بعد ایک بار پھر باقی ملک میں قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے مزید اربوں کے اخراجات کئے جا سکیں’ ایک غریب ملک جس کی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کاشکار ہے اور عالمی ادارے جس کی معیشت کے حوالے سے ریٹنگ کو منفی درجوں پر رکھنے کی کہانیاں سنائی ہوں’ وہاں صرف تین چار ماہ کے وقفے سے دو صوبائی اسمبلیوں اور پھر قومی کے علاوہ مزید دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے اتنی بڑی رقم کہاں سے اور کس طرح مہیا کرسکتا ہے ؟ دوسری جانب سپریم کورٹ کے احکامات کے حوالے سے دوصوبوں کے انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹیں بھی نظر آرہی ہیں’ چونکہ خزانہ محولہ اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ صرف سکیورٹی اور انتخابی عملے پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے حکومت کو مشکلات درپیش ہوں گی اور سب سے اہم مسئلہ موجودہ امن وامان کی صورتحال کے تحفظ کا ہے جس کے بارے میں سکیورٹی ادارے پہلے یہ ضروری نفری دینے سے مبینہ طور پرمعذرت کرچکے ہیں ‘ یہاں تک کہ پولنگ کے لئے عدالتوں نے بھی متعلقہ عملے کی فراہمی اور دیگر نچلے درجے کے عملے کی فراہمی کے لئے محکمہ تعلیم ‘محکمہ صحت ‘ محکمہ زراعت وغیرہ نے بھی حامی نہیں بھری، اس لئے اکیلا الیکشن کمیشن کیا کرسکتا ہے’ الیکشن کمیشن اور عدلیہ احکامات توجاری کر سکتی ہیں مگر قوت نافذہ سے محروم ہیں’ ایسی صورتحال میں کیا دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کاانعقاد سپریم کورٹ کے احکامات کے عین مطابق ممکن ہوسکتے ہیں؟ اللہ کرے کہ ایسی صورتحال پیدا ہو کہ یہ مشکل بخیر و خوبی حل ہو اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آئین کے تقاضوں کے عین مطابق انعقاد پذیر ہوسکیں۔

مزید پڑھیں:  ''روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت''؟