جیسا کروگے ویسا بھروگے

کہا جاتا ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے مردوں سے مشکلات ہوسکتی ہیں اختلافات اور سب کچھ ممکن ہے مرد ہراساں کرسکتا ہے مگرمرد کی عورت سے دشمنی معاشرے میں معیوب اور مردوں کے شان کے خلاف گردانا جاتا ہے لہٰذا مرد کو عورت کا دشمن اس وقت تک نہ گردانا جائے جب تک ان کے درمیان باقاعدہ کوئی وجہ عناد سامنے نہ آئے مگر عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے ضرب المثل کی حد تک درست مانی جاتی ہے اور ایسا مانے بغیر چارہ بھی نہیں عورتوں میں حسد کی شرح کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے اور عورتیں چونکہ مردوں کی مدمقابل نہیں اس لئے فطری طور پر ان کے حسد کا نشانہ بھی ان کی ہم صنف ہی بنتی ہیں تمہید کا مدعا اوراپنی ہم صنف سے سخت شکایات کی بنیادی وجہ رشتے کے لئے لڑکی دیکھنے جانے کے وقت ان کارویہ کردار اور نخرہ ہے جو اپنی ہی ہم صنف کو اس طرح کٹہرے میںکھڑی کرکے دیکھتی اور پرکھتی ہیں گویا وہ گوشت پوست کی انسان نہیں بلکہ فیکٹری میں بنی کوئی شو پیس ہو اور ایسی پراڈکٹ کہ کسٹمر کی منشاء کے مطابق اسے ڈھال کر سنوار کرخوبصورت پیکنگ میں پیش کیا جائے چونکہ خواتین ہی لڑکی کا معیار پرکھ رہی ہوتی ہیں اس لئے قصوروار بھی وہی ٹھہریں گی ورنہ مرد کو لڑکی پسند آجائے تو جاں پر کھیل کربھی حاصل کرتا ہے یاپھر سرد ھڑ کی بازی ہار کر قربان ہو جاتا ہے شادی کرنے والا مرد اگرلڑکی میں کچھ خامیاں تلاش کرے پرکھے تواس کی گنجائش اس لئے ہے کہ انہوں نے زندگی گزارنی ہوتی ہے لڑکی پسند نہ آئے شکل و صورت انداز خواہ جس بھی وجہ سے ہو تو دونوں کے لئے مشکل ہوتا ہے اسی طرح لڑکی کا بھی پورا پورا حق ہے کہ وہ لڑکے کو دیکھنے کے بعد اپنی مرضی کا اظہار کرے اس کی اجازت اسلام نے بھی دی ہے اور یہ وہ واحد اجازت ہے جس میں نامحرم لڑکی پر نظر ڈالنے کی اجازت دی گئی ہے سو یہ دونوں کاحق ٹھہرا۔ہاں لڑکے اور لڑکے کے والدین کو رشتہ قائم کرتے وقت ایک دوسرے کے خاندان کے حوالے سے پورا اطمینان کرنے کاحق حاصل ہے مگراعتدال کے ساتھ اس لئے کہ فرشتہ کوئی بھی نہیں ہوتا نہ لڑکی کے خاندان والے اور نہ ہی لڑکے والے ‘ اسی طرح غیر ضروری توقعات بھی رکھنا نہیں چاہئے عموماً لڑکی والے لڑکی کواور لڑکے والے لڑکے کی ایسی خوبیاں بیان کرتے ہیں اور بڑھا چڑھا کر بات کی جاتی ہے کہ مبالغہ کی حد کردی جاتی ہے اور پھر لڑکالڑکی ویسے نہیں نکلتے توشکایتیں شروع کردی جاتی ہیں بہتر ہو گا کہ دونوں کو یہاں بھی گوشت پوست کا انسان ہی رہنے دیا جائے روبوٹ کی طرح مطیع اور خرابیوں سے مبرا نہ قرار دیا جائے ۔یادش بخیر ہمارے ایک رشتہ دار کی لڑکی کو دیکھنے کے لئے لڑکے والے اچانک آگئے تو لڑکی کے والد نے ان کوپہلی نظر میں جانچنے کے بعد مخاطب کیاکہ آپ لوگ بڑے ہوشیار نکلے چلیں ٹھیک ہیں اطلاع دے کے آتے تو کچھ تیاریاں اور مصنوعی پن کا جانے انجانے مظاہرہ ہوتا اب تو اچانک آگئے تو سب کچھ سامنے ہے میں بھی صریح لفظوں میں بتا دوں کہ ہم معتدل رویہ اور انداز رکھنے والے لوگ ہیں غصہ بھی آتا ہے جھگڑتے بھی ہیں اور معافی بھی مانگتے ہیں بس اتنا یقین دلادوں کہ دھوکہ دینے والے نہیں اورجان بوجھ کر کسی کا نقصان نہیں کرتے باقی انسان عاجز چیز ہے کوتاہیاں کمی بیشیاں ہوہی جاتی ہیں یقین جانیں چائے کا کپ بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ بات سن کر لڑکے کے والدین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور بات رشتے کے موضوع سے ہٹ کرمعمول کی گپ شپ کی طرف مڑ گئی۔دم رخصت لڑکی کی والدہ نے اسی طرح صریح لفظوں میں کہا کہ مجھے آپ کاگھرانہ اور لڑکی دونوں پسند ہیں اب آپ لوگ بھی چکر لگائیں اسی طرح لڑکے کے والد نے بھی بس اتنا ہی کہا کہ ہم آپ کی آمد کا انتظار کریں گے جب بھی آجائیں البتہ گھرمیں رنگ وروغن کا کام ہو رہا ہے وہ کچھ سنبھل جائے تو تشریف لائیں تو اچھا ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا لڑکی کے والدین اور ماموں لڑکے کے گھر گئے لڑکے سے ملے اور چاے پیتے ہی غیر رسمی بات چیت ہوئی اور رشتہ طے ۔ ایسا کرنا آسان اور سادہ طریقہ اپنانا کتنا مفید ہوتا ہے ہمارے ہاں ڈرامے میں جودکھاتے ہیں خواتین عملی طور پر اس ڈرامے کو کسی کے گھر جا کر دہرا رہی ہوتی ہیں مناسب ہو گا کہ لڑکی کو ایسے نظروں سے جانچا جاتا ہے ایسی باریکیاں دیکھی جاتی ہیں ایسی خامیاں ڈھونڈی جاتی ہیں کہ لڑکی اور اس کے والدین زمیں میں گھڑ جاتے ہیں کیا یہ بہتر نہیں کہ اس طرح لڑکی دیکھنے کارواج ہی ترک کردیا جائے کسی شادی کی تقریب میں دفتر سکول کالج یونیورسٹی میں کسی بہانے سے لڑکی کے گھر جا کر کسی رشتہ دار کی وساطت سے غرض غیر محسوس طریقے سے اور لڑکی اور اس کے اہل خاندان کی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر لڑکی دیکھی جائے اور ان کے گھر اس وقت ہی جایا جائے جب رشتے کا ذہن بن جائے ہاں اس کے بعد اگرمعاملات طے نہ پائیں تو یہ الگ بات ہوگی اور ایسا ہونا کوئی معیوب بات نہیں لڑکی کی یوں شناخت پریڈ کے اس قبیح فعل سے توبہ کی جائے اور ہاں عورتیں کم ازکم عورت کی دشمنی کا رویہ نہ اختیار کریں خدارا اگررشتہ نہیں کرنا تومت کریں مگرکسی کی بیٹیوں کی عیب تراشی مت کیجئے ذرا سوچئے کہ جن بچیوں کو کوئی ٹھکرائے توان کے دل پرکیاگزرتی ہو گی۔کسی کی بیٹی کومسترد اور انکار کرنے سے قبل ذراایک نظر اپنے ”شہزادے” پربھی ڈالیں۔ رشتہ سے معذرت کابھی مہذب انداز ہونا چاہئے اور اس کااظہار مناسب الفاظ اور مہذبانہ لہجے میں کیا جائے کسی لڑکی کی باڈی شیمنگ نہ ہواور نہ ہی کسی کی لڑکی کوتنکے سے تشبیہ دی جائے انسان کے جسم اور صحت پر ان کااپنا اختیار کم ہی ہوتاہے والدین توبیٹوں کے لقمے تک اس خوف سے گنتے ہیں کہ دو چار لقمہ زیادہ کھانے سے کہیں وزن نہ بڑھے یہ عذاب ہمارا آپ کا اس معاشرے کا پیدا کردہ ہے اور اس کا شکارہونے والے بھی ہم ہی میں سے ہیں۔یہ بھی مت بھولئے کہ آپ دس بارہ کوٹھکرا کر کوئی نہ کوئی بہو تولائیں گی اس کی بنیاد اگراس طرح رکھی جائے کہ لاکھ نخرے کرکے لاکھوں میںایک کا انتخاب ہو تواس بات کی کیا ضمانت کہ بظاہرسگھڑ اور نرم مزاج دکھنے والی کس قدر آفت کی پرکالہ ثابت ہو۔ سب کچھ جسمانی خدوخال ‘ حسن و دولت ‘ خاندانی وقار نہیں ہوا کرتا یہ خصائل کسی حد تک تو ضروری سہی مگراسے ہرگز ہر گزمعیار اور پیمانہ نہ بنائیں دیگر عوامل کی طرف بھی توجہ دیا کریں سب سے بڑھ کریہ کہ وہ بھی کسی کی صاحبزادی اور مان ہیں۔
اسلام میں وہی نکاح پسندیدہ ہے جو سادگی کے ساتھ اور کم ہجوم میں طے پائے سادگی اور خلوص کے ساتھ ر شتوں کا ابتداء نہ ہونا بے برکتی اور بعد کے اختلافات کا باعث بنتا ہے ابتداء سچائی اور خلوص نیت سے ہوتو رشتہ نبھانے کی توفیق قدرت سے بھی ملتی ہے اور خاندان بھی بنتا ہے ۔ رشتہ ہر ایک کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا خیال رہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔

مزید پڑھیں:  ''روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت''؟