فیصلہ تیراتیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم

ایک مہربان قاری نے حال ہی میں لکی مروت میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی اقبال مومند کے سادہ اور کسی پسماندہ محلے میں واقع گھر کی تصویر شیئر کی ہے میں عموماً اسی طرح کے شیئر کردہ چیزیں اس لئے نظر انداز کرتی ہوں کہ اس طرح کا مواد اس لئے قابل توجہ نہیں ہوتا کہ تصویر کے بھی دورخ ہوتے ہیں جب تک آپ کو دونوں رخ کا پتہ نہ ہواس پر کیا لکھا جائے لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے بھی یہ تصویر بھاگئی اس کے باوجود کہ مجھے علم نہیں اور نہ ہی تصویر بھجوانے والے نے اس امر کی تحقیق کی ہے کہ یہ ان کا آبائی گھر اور گائوں کے محلے کا گھر بھی ہوسکتا ہے اور وہ خود کہیں اور رہتا ہو بہرحال اس سے قطع نظر میرا یہ قاری ان کی پشتو شاعری سے بھی کافی متاثر نظرآتا ہے اور یہاں حال یہ کہ زباں یارمن ترکی ومن ترکی نمی دانم بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں برائی کی ترویح اور نیکی و سچائی کو نظر انداز کرنا ایک اجتماعی معاشرتی عادت ہے چورمچائے شور کے مصداق ہماری سیاست اور میڈیا بھی سوائے شور مچانے کے کچھ اور نہیں کرتے اس لئے معاشرہ من حیث المجموع اس رائے سے متفق نظرآتا ہے کہ پاکستان میں سب چور ہیں سرکاری ملازمین کو رشوت ستانی سے فرصت نہیں وغیرہ وغیرہ میں بدعنوانی کا دفاع نہیں کرتی اور سب کو نہ بدعنوان قرار دیتی ہوں اور نہ ہی سب کو فرشتہ سمجھتی ہوں اس ملک میں کیاکیا نہیں ہوتاکالم ارسال کرتے کرتے میں یہ جان کر چونک گئی کہ خیبر پختونخوا پولیس کو جو آہنی خود اور بلٹ پروف جیکٹیں دی گئی ہیں وہ گولی روکنے کی صلاحیت اور حفاظت کے حامل نہیں مجھے معلوم ہے کہ دیگر بھی ایسے ادارے موجود ہیں جن کے اہلکار جان کی حفاظت کے لئے سرکاری اسلحہ پر اعتماد نہیں کرتے اور ان کے پاس ان کا اپنا اسلحہ ہوتا
ہے اندازہ لگائیں کہ بلٹ پروف سامان میں بھی دھوکہ دہی سے خوف خدا نہیں کیا گیااس طرح ہی کا کوئی موقع تو نہ ہو گا بہرحال شاعر کا تخیل کمال کا ہے کہ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری بدعنوانی اور بددیانتی کی اس سے بڑھ کر کوئی کام شاید ہی ہو گا کہ جان کی حفاظت کے لئے درکار سازو سامان بھی جعلی خریدا گیا اور عالم یہ کہ جدید ترین اسلحہ سے لیس دہشت گردوں کا مقابلہ درپیش ہے۔بہرحال میں اور آپ اس معاشرے اور نظام کا حصہ ٹھہرے اس کی خامیوں اور خرابیوں کے ساتھ اس کی خوبیوں اور اچھائیوں سے بخوبی واقف ہیں حقیقت یہ ہے کہ بدعنوان تھوڑے اور اچھے زیادہ ہیں چلیں اس سے اگر آپ کو اتفاق نہیں تو یہ تو بہرحال مان لیجئے کہ ہر کسی کو خاص طور پر سرکاری ملازمین کو بدعنوانی کا موقع نہیں ملتا بدعنوانی آسان کام نہیں مشکل کام ہوتا ہے اس کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور ایک پوری زنجیر بنا کر اوپر سے نیچے تک سبھی کو خوش رکھنا پڑتا ہے تبھی چوری اور سینہ زوری ممکن ہوتی ہے اس کے بغیر سو پچاس کی رشوت لے کر دیکھیں دوسرے دن جیل ہو گی۔بدعنوان لوگوں کا ایک گروپ ہوتا ہے جس میں شراب ‘کباب ‘ شباب سبھی کچھ ہوتا ہے کون کس چیز کا رسیا ہے اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے تب جا کر بدعنوانی کا دروازہ کھلتا ہے
حرام کھانا آسان کام نہیں اور جو لوگ حرام کے عادی ہوں ان کے لئے یہ کوئی مشکل نہیں ان لوگوں کے لئے حلال کے لقمے پر اکتفاء کرنا مشکل ہوتا ہے پولیس ہمارے معاشرے میں رشوت ستانی کی افسانوی علامت کے طور پر مشہور ہے مجھے یقین کامل ہے کہ پولیس کی اس بری شہرت کے باوجود حقیقت وہ نہیں جو میرے اورآپ کے ذہنوں میں ہے بلکہ حقیقت کی ایک تصویر ڈی ایس پی اقبال مومند کا وہ رنگ و روغن سے محروم بوسیدہ سا گھر ہے ہزاروں کی پولیس فورس میں چند سو زیادہ سے زیادہ ہزار پندرہ سو دو ہزار افراد بدعنوان ہو سکتے ہیں پوری پولیس نہیں ہر پٹواری بھی کرپٹ نہیں ہوگا مگر کیا کیا جائے کہ پٹواری سے تو اعلیٰ سے اعلیٰ افسر سے لے کر نائب تحصیلدار تک سبھی انہی سے مانگتے ہیں اور پٹواری کو چونکہ ان سب کا گھر چلانا ہوتا ہے سرکاری فرمائشیں اور حکمرانوں کے جلسوں کو رونق بخشنے کا انتظام کرنا ہوتا ہے اس لئے وہ بدعنوانی پرمجبور ہے جب دنیا کو کھلانا مجبوری بنا دی جائے تو ہو تو بندہ ظاہر ہے خود بھی تو کھائے گا۔
صدر ایوب خان جہاں شکار کرنے جاتے تھے اس علاقے کے پٹواری کی کہانی پڑھئے اور پھر اندازہ لگایئے کہ جب پٹواری بولنے لگتا ہے تو حاضر سروس بریگیڈیئر تک دم نہیں مار سکتا اور ڈپٹی کمشنر منت پراتر آتا ہے اور پھرحق گوئی کا معاملہ دبا دیا جاتا ہے ۔ پولیس میں بدعنوانوںکی شہرت ہوتی ہے خیبر پختونخوا کے چند انسپکٹرز کی رشوت ستانی کے حقیقی قصے کسے نہیں معلوم ان لوگوں کا معاملہ عدالت بھی گیا کس نے کیا بگاڑا چند ایک کی رشوت ستانی کی
کہانیاں سنیں تو بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے رشوت خوروں کے حلیے پر بھی نہ جائیے ایک سفید ریش ڈی ایس پی مسجد کی صف میں بیٹھ کر رشوت لیتے رہے ہیں ایسے بھی ہیں کہ ڈی آئی جی ریٹائر ہوئے کل متاع ایک پرانی سائیکل اور گائوں کا آبائی مکان ۔ پولیس ہر کام میں ملوث ہوتی ہے زمینوں پر قبضہ کرنے والے ایک نوجوان کا کسی نے قصہ سنایا تھا کہ ان کوجعلی پولیس مقابلہ کرنے والے ایک انسپکٹر نے عشاء کے وقت رنگ روڈ پر ہزار خوانی طلب کیا جب وہ گاڑی سے اترے تو اسے کچھ عجیب سا لگا کہ پولیس تیاری کی حالت میں کھڑی ہے نوجوان کو دیکھ کر انسپکٹر کا رنگ اڑ گیا کہ وہ اس کو پہچانتا تھا پھر ان کو صاف کہہ دیا کہ چلے جائو تمہاری سپاری دی گئی تھی اچھا ہوا کہ تم بچ گئے اندھا دھند فائرنگ کی تیاری تھی کچھ بھی ہوسکتا تھا مگر اچھا ہے کہ ٹریگر دینے سے پہلے نظر پڑ گئی ۔ ذرا یاد کریں کہ کس پولیس انسپکٹر پر ریکارڈ بدعنوانی کامقدمہ بنا تھا اور آج وہ کہاں افسر لگا ہوا ہے بڑی کہانیاں ہیں بڑے حقائق ہیں خوشی ہے کہ ایک ایسے ڈی ایس پی کی بھی مثال دی جارہی ہے کہ وہ رشوت خور نہ تھا آج وہ ایک دیانتدار شہید بن چکا ہے اگر بدعنوان ہوتا تو یا تو شہادت نہ ملتی اور اگر مارا بھی جاتا تو کاغذوں میں بھلے شہید کہلاتا شہید پیکج بھی ملتا لیکن وہاں مجرم ٹھہرتے۔ اس ملک میں بدعنوانی ہے اندھیر نگری بھی ہوگی مگر دیانتدار افراد کی بھی کمی نہیں جو نان جویں پر شکر ادا کرتے ہیں اور قناعت کی زندگی بسر کرتے ہیں ایسے ہی لوگ خوف خدا رکھنے والے ہیں اور انہی کا صلہ ان کے رب کے پاس ہے ۔باقی جو لوگ آگ سے کھیلیں گے تو ان کوجھلسا دینے والی آگ ہی ملے گی جس سے ان کو کوئی چھڑانے والا نہیں ملے گا۔
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے