قومی مفاد کے تقاضے

ہوش و خرد کی سرخ لکیر پھلانگنے کے نتائج کیا ہوتے ہیں’ اس سوال پر کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیں’ وطن عزیز میں گزشتہ تین روز سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کو محب وطن حلقوں میں کوئی پذیرائی نہیں مل سکتی، تحریک انصاف کے چیئرمین کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ، جلائو گھیرائو، توڑ پھوڑ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ جھڑپوں سے دنیا بھر میں جس طرح جگ ہنسائی ہو رہی ہے وہ ایک طرف جبکہ ہمسایہ اور ازلی دشمن بھارت کے اندر جس طرح خوشیاں منائی جا رہی ہیں وہ اصولی طور پر ہمارے لئے چشم کشا ہونا چاہئے’ قانون شکنی کی ان وارداتوں میں مجموعی طور پر اب تک 9 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے، تازہ ترین خبروں کے مطابق تادم تحریر ایک سو دس افراد قانون شکنی کے الزام میں گرفتار کئے جا چکے ہیں ‘ملک کے مختلف شہروں میں اہم تنصیبات اور حساس عمارتوں کو یا تو لوٹا گیا یا پھر انہیں نذر آتش کر دیا گیا ہے’ اس حوالے سے ایک سیاسی جماعت کے اہم رہنمائوں کی آڈیوز بھی لیک ہو کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہیں جبکہ مزید آڈیوز اور ویڈیوز کے وائرل ہونے کے حوالے سے بھی خبریں گردش میں ہیں، ان آڈیوز اور ویڈیوز میں جو زبان استعمال کی گئی ہے یا پھر محولہ جماعت کے کارکنوں کے ”کارناموں” پر تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں ان سے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے”حملہ آور”کسی دشمن ملک میں کارروائیاں کرکے خوشی کا اظہار کر رہے ہوں’ یہ رویہ نہ صرف انتہائی افسوسناک ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے، حیرت تو اس امر پہ ہے کہ افراتفری پھیلانے والوں کی متعلقہ جماعت کے رہنمائوں کی جانب سے کوئی مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ الٹا ان سے لا تعلقی ظاہر کر کے خود کو بری الذمہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں’ یہاں تک کے احتجاج کرنے والی جماعت کے رہنماء نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس افراتفری، قانون شکنی اور نا قابل قبول بلکہ قابل مذمت کارروائیوں کی ذمہ داری اتحادی حکومتی جماعتوں پر ڈال کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ان قانون شکن کارروائیوں میں کن کا ہاتھ ہے’ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جس طرح آگ لگا کر اسے تباہ کیا گیا اور اس سے ایک روز پہلے ریڈیو پاکستان کے ہی ایک حصے پر پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی یادگار کے طور پر بنائے گئے چاغی ماڈل کو جلایا گیا، اسی طرح کور کمانڈر پشاور کے گھر اور دیگر تنصیبات پر حملے کر کے تباہی پھیلائی گئی’ ایدھی کہ ایک ایمبولینس میں سے مریض اور لواحقین کو اتار کر اسے نذر آتش کیا گیا جبکہ باچا خان چوک میں جانوروں کی مارکیٹ کی کئی دکانوں کو آگ لگا کر بے زبان جانوروں کو زندہ جلایا گیا’ ان واقعات کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے’ خصوصاً بے زبان جانوروں کو زندہ جلا کر اللہ کے قہر و غضب کو آواز دی گئی، تباہی و بربادی’ آتش زنی اور توڑ پھوڑ کی کارروائیوں کی جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں ان کا ڈیٹا ابھی مکمل طور پر اکٹھا نہیں کیا گیا اس کے باوجود جتنی تفصیلات بھی اب تک سامنے آئی ہیں ان پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے’ اہم تنصیبات اور حساس نوعیت کی عمارتوں پر مبینہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے دوران اہم سکیورٹی اداروں کی جانب سے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیاگیا اس سے ” نامعلوم دشمن” کے ان ارادوں کو خاک میںملا دیا گیا ہے جن کا مقصد سکیورٹی اداروں اور ”بلوائیوں” کو آمنے سامنے لا کر منظم خانہ جنگی کو ہوا دینا مقصود تھا’ ہم اہم ترین سکیورٹی ادارے کے ذمہ داروں کی جانب سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے”چھپے ہوئے” ملک دشمن ہاتھوں کے مذموم مقاصد کوکسی بھی طور کامیاب نہیں ہونے دیا’ یہی قومی مفاد کا تقاضا تھا اور اسی پر کاربند رہ کر ہمیں ملک کو افراتفری سے بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے’ یہ جو چند سو بگڑے ہوئے اذہان کسی کے آنکے میں آکر ملک میں افراتفری پیدا کر رہے ہیں’ ان کے پیچھے چھپے ہوئے پوشیدہ مکروہ کرداروں کو پوری قوم جان چکی ہے اور امید ہے کے مبینہ ”بے راہ رو” نوجوان نسل کی جس طرح برین واشنگ کرکے ملک کے مفادات کے خلاف اکسایا گیا ہے’ اس نسل کو مزید تباہی و بربادی میں کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، یہ ملک ہے تو ہم ہیں’ اس ملک کی فلاح و بہبود میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے ہم باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر آگے بڑھ سکتے ہیں’ بصورت دیگر ایک بار پہلے بھی ہم آدھا ملک گنوا کر کیا حاصل کر چکے ہیں اس سوال کا جواب اگر کسی کے پاس ہے تو وہ قوم کے سامنے رکھ دے تاکہ قوم اس سے ہی اپنے لئے کوئی راہ متعین کر سکے۔

مزید پڑھیں:  سمت درست کرنے کا وقت