بی آر ٹی کو نشانہ بنانے کا قابل مذمت اقدام

پشاور میں دو روزہ احتجاج میں پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ کی 25بسوں اور دو سٹیشنز کو نقصان پہنچانے کی حرکت حد درجہ افسوسناک ہے۔اس دوران مشتعل افراد نے بسوں کے شیشے توڑ ے بس سٹیشن کے کائونٹر ز سمیت دیگر مقامات پر توڑ پھوڑ کی۔ مظاہرین کی جانب سے بسوں پر پتھرائو کیا گیا اور ڈنڈے برسائے گئے۔ مظاہرے کے ابتداء میں ہشتنگری میں بی آر ٹی ٹریک پر ڈنڈا بردار مظاہرین گھس آئے تھے اور بس روک لی بی آر ٹی سٹیشن پر موجود سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو نکال کر سسٹم بحال کر دیا تاہم بعد ازاں مظاہروں میں شدت آنے کے بعد مظاہرین نے بی آر ٹی کو نشانہ بنایا گیا سٹیشنز پر توڑ پھوڑ کی گئی اور سٹیشن پر شیشے توڑ دئیے گئے اسی طرح بی آر ٹی کی چلتی بسوں پر پتھرائو کیا گیا اور بسوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ احتجاج کی ابتداء میں پہلے روز مظاہرین کی جانب سے بی آر ٹی کو نشانہ نہ بنانے کا مثبت رویہ اپنایا گیا لیکن اگلے روز مظاہرین میں شاید ایسے افراد شامل ہو گئے تھے جنہوں نے خود تحریک انصاف کے دور کے اس اہم ترین عوامی منصوبے کو نشانہ بنانے کا مذموم عمل کیا صوبے میں تحریک انصاف کی دو حکومتوں کا مشترکہ عوامی منصوبہ جس کی مخالفین بھی تحسین پر مجبور ہیں اسے نشانہ بنانے کا مطلب اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف اس لئے ہے کہ اس کی طرف پھینکا جانے والا ہر پتھر بھر سے آئے اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت کے اس سے روزانہ کی بنیاد پر مستفید شہریوں کے لئے بلا امتیاز قابل نفرت ہے ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کی سہولت پر سنگ باری کرکے حمایت حاصل نہیںکر سکتی تحریک انصاف کی قیادت ہو یا کوئی بھی دیگر احتجاجی جماعت یا گروہ سبھی کو یہ بات پلوسے باندھ لینی چاہئے کہ وہ بی آر ٹی کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں ایسا کرنا ان کے اپنے حق میں ہی بہتر نہیں بلکہ صوبے کے عوام کے بھی مفاد کا تقاضا ہے ۔مظاہرین اور ان کی قیادت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صوبے میں جو بھی سرکاری منصوبہ بنتا ہے اور جس دور حکومت میں بھی اس کی تکمیل ہوتی ہے اس پر صوبائی خزانے سے رقم خرچ ہوتی ہے جو صوبے کے عوام کی ملکیت ہے کسی بھی سرکاری منصوبے کو نشانہ بنانااس وقت کی حکومت اور انتظامیہ کے خلاف اپنی دانست میں احتجاج تو سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت کسی بھی سرکاری املاک کی طرف پھینکا جانے والا پتھراپنا ہی سر پھوڑنے کا مترادف ہوتا ہے جس کا علاج بھی اپنی جیب سے کرنا پڑے گا اور دکھ اور تکلیف بھی خود ہی جھیلنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن