اپنی مدد آپ

بچے ہر گھر میں ہوتے ہیں اور بچے کب بڑے ہو گئے اس کا پتہ بھی نہیں چلتا لڑکیاں کتنی جلدی قد نکال لیتی ہیںاس کا احساس ہی نہیں ہوتا اچانک بڑی ہوجاتی ہے اور لڑکوں کے بارے میں تو کہوار(چترالی زباں) کی کہاوت ہے کہ لڑکے کی پیدائش مشکل ہے لڑکا تو پیدا ہوتے ہی جواں ہوجاتا ہے میں نے اس محاورے پر کافی غور کیا تو اس میں ایسی کوئی صنفی تفریق والی بات محسوس نہ ہوئی جو کہ عموماً تلاش کرنے کا ہمارے ہاں بڑارجحان اور فیشن ہے ۔ لڑکے کے حوالے سے یہ بات شاید اس لئے کی گئی ہوگی کہ ماضی میں اولاد نرینہ اور گھرمیں مرد کا ہونا مختلف لحاظ سے مثلاً تحفظ ‘ کھیتی باڑی اور جنگلات سے خاشاک ڈھو کر لانے جیسے کاموں کے لئے بطور خاص ان کی ضرورت پڑتی تھی اور وہ کم عمری ہی سے یہ خدمات انجام دینے لگنے لگتے تھے بہرحال بدلتے حالات او زمانے نے اب وہ صنفی تفریق اور برائے ضرورت کی تفریق دونوں مٹا دی ہے اب لڑکا لڑکی کو صنف کی بنیاد پر پرکھنے کی بجائے تعلیم اور علمی مسابقت ومحنت سے پڑھنے اور اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے اور اہلیت کے بل بوتے پر مقام حاصل کرنے کے فارمولے پر پرکھا جارہا ہے یہ صلاحیت قدرت نے بطور صنف ودیعت نہیں کی ہوتی ہے اس میں دونوں صنف برابر ہوتے بس شرط سخت محنت کی ہے ۔ بچے کتنی تیزی سے بڑے ہو گئے یہ سوچنے والے صرف آپ والدین نہیں بلکہ ہر والدین کا یہی خیال ہے ۔ فی زمانہ بچوں کی خوراک اور پہناوے کا انتظام کافی نہیں یہ علم اور تعلیم حاصل کرنے کی صدی ہے اب آہستہ آہستہ یہ ٹیکنالوجی کی صدی میں تبدیل ہوتی جارہی ہے اب بچوں کی تعلیم کے اخراجات ان کی فیسوں کی ادائیگی عام لوگوں ہی کے لئے نہیں متوسط طبقے کے بس سے بھی باہر ہو گئی ہے ۔ افراط زرمیں مسلسل اضافہ اور آمدنی میں ٹھہرائومیں تفاوت اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب متوسط طبقے کے والدین اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت سے باہر ہونے پر نجی سکولوں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کرانے لگے ہیں پشاور کے کئی نجی سکولوں سے طلبہ کی سرکاری سکولوں میں منتقلی کے حوالے سے ہمارے ایک قاری نے اپنی داستان سناتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے چار بچے نجی سکول میں زیر تعلیم تھے جن کی فیسیں اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات لگ بھگ ان کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ہو گئی تھیں مہنگائی کے باعث انہوں نے بچوں کو پہلے ہی لنچ کے پیسے دینا بند کر دیا تھا مگر اس کے باوجود مجبوراً اب انہوں نے سرکاری سکول میں بچوں کی منتقلی کا
فیصلہ کیا اور کس دل سے ہم والدین نے یہ فیصلہ کیاوہ ہمارا دل ہی جانتا ہے زیور اور زمین ہوتی تو وہ بیچ کر چندسال اور بچوں کو اچھے سکول میں پڑھاتے مگر وہ بھی پاس نہ تھا ۔ میں نے کہیں ایک رپورٹ پڑھی تھی کہ حالیہ سالوں میں ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد کالج جانے سے اس لئے محروم رہے کہ ان کے والدین اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے ایک بین الاقوامی جریدے کے مطابق تمام مضامین اور براعظموں میں کالج کی فیسوں میں سالانہ کم ازکم پندرہ فیصد اضافہ ہو رہا ہے تاہم تمام والدین کی کمائی اس شرح سے نہیں بڑھ رہی ہے وہ والدین جنہوں نے ابتدائی سالوں میں اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی فیسوں کی منصوبہ بندی نہیں کی تھی وہ اکثر بے بس ہو کر کالج کی فیسیں دینے کے لئے نامناسب شرحوں اور شرائط پر قرض لیتے ہیں یہ بدلے میں ان کی بچت اور طرز زندگی کو ختم کر دیتا ہے ۔ بین الاقوامی جریدے کی اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں نسبتاً ایسے ممالک کا جائزہ لیاگیا ہو گا جہاں بچوں کی تعداد کم اور منصوبہ بندی کے ساتھ زندگی گزارنے کا رجحان ہوگا ہمارے ہاں تو بچوں کی پیدائش پر کوئی کم ہی سوچتا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کے بھی انتظامات کی ضرورت ہو گی المیہ یہ ہے کہ پاکستان آبادی کی شرح میں اضافے والے ترقی کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہے مستزاد ہمارا معاشرہ خاص طور پرکم تعلیم یافتہ اور دیہی معاشرے میں بچوں کی تعلیم کے اخراجات کی پیش بندی کی ضرورت واہمیت کا کسی کو خیال بھی نہیں آتا۔
آج ملک میں مہنگائی کی وجہ سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے کجا کہ بچوں کی تعلیم کے اخراجات کے لئے ابتداء ہی سے بچت کی جائے ۔ بچت اور ورزش کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ ایسا کرنے کا ہر کوئی خواہش مند ہوتا ہے مگر کر نہیں پاتا ۔ اس طرح کی صورتحال میں ظاہر ہے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنی آمدنی بڑھانے کے غیر روایتی طریقوں پر غور کیا جائے مرد تو مرد خواتین بھی اس مد میں ہاتھ بٹانے کے لئے کمر کس لیں یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیاکیا جائے ۔میری ذہن میں چند ایک تجاویز ہیں باقی ہر کسی کو اپنی سوچ اور حالات کے مطابق دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ کیا کرسکتے ہیں اور ان کے لئے کیا ممکن ہے جن لوگوں کے پاس پانچ سے آٹھ لاکھ روپے ہوں یا تین چار لاکھ بھی ہوں ظاہر ہے کام کے ساتھ وہ کوئی دھندا نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اسے کہیں سرمایہ کاری کرکے معقول ماہانہ رقم حاصل کی جاسکتی ہے ایسے لوگوں کے لئے میری تجویز ہے کہ وہ اس رقم کے عوض بجلی کے بلوں سے جان چھڑانے اور اس میں کمی لانے کی کوشش کریں یوں ان کو ایک سہولت بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات اور مفت کی بجلی حاصل ہو جائیگی ان کو اس رقم سے سولر سسٹم لگانا چاہئے گرین میٹر شاید نہ لگ سکے مگر انورٹر کے ساتھ چار پلیٹیں بھی لگ جائیں تو بجلی کے بل کی ماہانہ رقم میں کمی آئے گی اور یہ بچت اور سہولت دونوں ہو گی ۔اس مستقل بچت کو وہ بچوں کی فیس دینے کے لئے مختص کر سکتے ہیں خواتین گھر میں فروزن آئٹم تیار کرکے قریبی سٹوروں کو سپلائی کر سکتی ہیں یہ نہایت کم رقم سے شروع ہو سکتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خوردنی اشیاء معیاری اور لذیذ تازہ ہونے کی بناء پر مقبولیت حاصل کرتی جائیں گی اور ان کا کاروبار بڑھتا جائے گا۔ گھرمیں کپڑوں کی سلائی کی بیوٹی پارلر سے تربیت لے کر کام کرنے سے بھی معقول آمدن حاصل ہوسکتی ہے غرض ہمت کی جائے تو کچھ نہ کچھ ماہانہ ہاتھ آسکے گی ۔ تعلیم یافتہ خواتین گھر بیٹھنے کی بجائے ٹیوشن پڑھائیں کچھ نہ کچھ کرنے کی جستجو ہو تو راہیں خود بخود کھل جائیں گی اور اپنی مدد آپ ہو گی۔ایک آخری سوال ذہن میں یہ آتا ہے کہ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اگر ان صورتوں میں کوئی بھی صورت ا ختیار کرنے کی صورت نہ ہوتوکیا کیا کیجئے اس کا بھی جواب مشکل نہیں اللہ پہ بھروسہ دیکھیں تعلیم کے حصول کے لئے وسائل ضروری ہیں لیکن کیا معاشرے میں ایسی درجنوں مثالیں آپ کے سامنے نہیں کہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا ان کا بھی قدرت نے وسیلہ بنایا اور وہ پڑھ لکھ کر بہتر عہدوں پر فائز ہوگئے یہ دنیا دارالاسباب میرے اور آپ کے لئے ہے مالک کائنات کے لئے نہیں وہ تو مسبب الاسباب ہے ”کن ”کا مالک وہ ” کن” فرما دیتا ہے اور ”فیکون” ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  گیس چوری اور محکمے کی بے خبری