اس کا ذمہ دار کون ؟

کافی عرصہ ہوا مسائل ومشکلات پرمبنی کالم نہیں لکھا حالانکہ مسائل سے آگاہی ہوتی رہی اس کی وجہ کوئی اور نہیں بس یہی خیال تھا کہ چار برس سے زیادہ ہو گئے لوگوں کے مسائل سامنے لاتے لاتے کم ہی کسی مسئلے کے حل کی نوید آئی ہولوگوں کی تو ایک بس نفسیات سی بن گئی ہے کہ میڈیا نے فلاں مسئلے کا نوٹس لیا اس پر کچھ لکھا گیا اور وہ اس انتظار میں رہے کہ مسئلہ حل کرنے پر توجہ دی جائے مگر ایسا ہوتا کم ہی ہے۔لیکن مایوسی کی بات یہ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے اب کسی حکمران کسی سیاستدان کسی بیورو کریٹ کو کوئی خیال اور پرواہ تک نہیں کہ میڈیامیںکونسا عوامی مسئلہ سامنے لایا گیا اور عوام حق ان دنوں کس مسئلے سے تنگ آکر سڑکوں پر احتجاج کرنے نکل آئے ہیں مایوسی کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ اب سوائے سرکاری ملازمین کے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کے’ سول سوسائٹی کسی مسئلے کے حوالے سے احتجاج کا مہذب حق استعمال کرنا چھوڑ چکی ہے اس کی وجہ ظاہر ہے مایوسی کے سوا کچھ نہیں کوئی لاکھ احتجاج کرے کچھ نہیں ہوتا یہاں تک کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں کوئی اٹھ کر چیخے تب بھی زبانی کلامی یقین دہانی دیکھنے کو ملتی ہے باقی ہوتا کچھ نہیں میڈیا کی بے وقعتی بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں رہا خواہ کتنی چیختی چنگھاڑتی سرخیاں لگائیں مجال ہے کہ کسی کے کانوں پر جونک رینگے بے حسی کے اس عالم کا ماتم ہی کیاجاسکتا ہے باقی تو ہونا کچھ نہیں سیاسی حکومتیں تکلفاً ہی میڈیا کو لوگوں کے مسائل اجاگر کرنے کا کہہ رہی ہوتی ہیں شاید ان کے پاس میڈیا کے حوالے ے کہنے کو اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتااب تو خیر سے صحافت بھی پلاٹوں اور مراعات کی ہوگئی ہے ”لفافہ” ایسے ہی بدنام ہے ”لفافہ” الزام ہو سکتا ہے لیکن یہ جو صحافیوں کو کالونیاں بنا کر دی جاتی ہیں ایک ایک دو دوپلاٹ ہر اخبارنویس نے لئے ہوتے ہیں یہ عام صحافیوں کی بات ہو رہی ہے ایجنڈے والے سیاسی اور خاص صحافی تو کیا کیا نہیں کرتے ہوں گے اس کاچونکہ درست علم نہیں اس لئے اسے رہنے دیتے ہیں جس معاشرے میں صحافت اور حکومت و سرکاری اداروں کے تعلقات دوستانہ ہوں وہاں عوام کی بات کرنے اور عوام کی بات آگے پہنچانے والا کوئی کہاں سے آئے ۔ اب تو خیر مختلف سرکاری محکموں اور اداروں نے اپنے اپنے ”صحافی” پال رکھے ہیں ۔ پولیس ہو یا محکمہ صحت یا محکمہ سیاحت وکھیل اورتعلیم جیسے شعبے ہر سرکاری محکمہ اور ادارہ صحافی رکھنے لگا ہے یہی وجہ ہے کہ مجال ہے کہ ان کے حوالے سے منفی خبریں چھپیں کچھ ناگزیر ہو جائے تو بھی اپنوں کے ذریعے اسے کور کر لیاجاتا ہے ۔شعبہ صحافت میں ایک اور بدعت یہ آئی ہے کہ اب بڑے بڑے گروپ خاص طور پر زمین قبضہ کرنے والے ہر گروپ کا اپنا اپنا چینل ہے آپ ذرا معلومات کریں کہ کس کس ہائوسنگ پراجیکٹ کا اپنا چینل اور اخبار ہے تو معلوم ہو گا کہ تقریباً ہر ایک کا حصہ بقدر جثہ میڈیا پر قبضہ اور اثر ہے ۔
میرا مدعا صحافیوں پر تنقید نہیں ان کے اپنے دکھڑے سنیں تو دنیا کا سب سے مظلوم طبقہ یہ ٹھہرتا ہے میں نے رونا رونا ہے عوام کا اور حکمرانوں کی بے حسی کا سرکاری اداروں کی بدانتظامی کا جس کی وجہ سے آوے کا آوا بگڑ گیا ہے کہنے کو وزیر اعظم اور وزراء اور حکام کے شکایات سیل ہوتے ہیں بعض محکموں میں بھی اس کا تکلف کیا جاتا ہے مگراس کے قیام کا اصل مقصد عوامی مسائل سے آگاہی او ان کاحل نہیں بلکہ دکھاوا ہوتا ہے کہ حقیقی صورتحال کم و بیش یہی ہے کہ مسئلہ حل کرنے کی بجائے الجھا دیا جاتا ہے اس سے اندازہ لگائیے کہ حکومت اور سرکاری اداروں کو عوام کاکتنا خیال ہے ۔مجھے کئی ایسے پیغامات آتے رہے ہیں کہ لوگوں نے بار بار شکایتیں کیں حکام کی توجہ دلائی گئی لیکن صدا بصحرا ۔ایک قاری نے اس کے باوجود بھی کہ ان کی جانب سے پولیس اور محکمہ انسداد منشیات کے دیگر اداروں کو باقاعدہ خطوط لکھنے کے باوجود کسی نے اس پر توجہ نہیں دی مگراس کے باوجود ابھی میں صرف ان کے اصرار پر ان کی شکایت شامل کالم کر رہی ہوں کہ مبادا کسی خوف خدا رکھنے والے کی نظر پڑ جائے اور ان کو اپنی ذمہ داری اور فرائض کا احساس ہو۔میرے محترم قاری ڈینز اپارٹمنٹس حیات آباد کے مکین ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فلیٹ کی بالکونی سے روزانہ مختلف منشیات کے عادی افراد کی ٹولیوں کی حیات آباد فیز سیون سے لے کر بورڈ تک جانے والی سیلابی گزر گاہ میں باقاعدہ آمدورفت دیکھ رہے ہوتے ہیں یہ افراد ٹولیوں کی صورت میں پھرتے ہیں اور جگہ جگہ ڈیرے ڈال کر نشے کی لت پوری کر رہے ہوتے ہیں یا پھر موقع ملنے پر خصوصاً رات کے وقت لوہا اور سریا تلاش کرتے ہوئے کوئی بھی چیز نہیں چھوڑتے ڈینز فلیٹس کے سامنے سڑک کنارے رکاوٹوں کے جو بلاک رکھے گئے تھے ان کو نشے کے عادی افراد توڑ توڑ کر سریا نکال کر لے جارہے ہیں ریزہ ریزہ سیمنٹ کے ڈھیر دیکھ کر بھی کسی کو خیال نہیں آتا کہ اس کے ذمہ داروں سے کوئی پوچھے اور ان باقی ماندہ بلاکس کی حفاظت کی سبیل کی جائے نشے کے ان عادی افراد کی ٹولیوں کو منشیات کھلے عام لا کر سپلائی کی جاتی ہے مگر کسی کو نظر ہی نہیں آتا یہ لوگ جہاں لوہا ہتھا لگے کاٹ کر کباڑیوں کوفروخت کر آتے ہیں کسی کباڑی کوچوری کا لوہا خریدنے پر کسی نے آج نہیں پوچھا ۔ شہرنا پرسان ہے سب کچھ پولیس اور انسداد منشیات کے اداروں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی اس کی روک تھام پر توجہ دے کم از کم سرکاری املاک کی تباہی ہی روکی جائے حیات آباد کی چاریواری میں فیز چھ میں باقاعدہ غیرقانونی دروازہ بنا کر کھول دیا گیا ہے جہاں سے موٹرسائیکلوں پرمنشیات پہنچانے کی آسانی ہی نہیں میسر آگئی ہے بلکہ اب تو دروزے پر جا کردوسری طرف منشیات سے بھری گاڑی سے پرچون فروشی کے لئے منشیات کے حصول کی بھی آسانی ہوگئی ہے نیز موٹر سائیکل سواروں کی گھروں پر منشیات پہنچانے کی مزید آسانی سے منشیات کا استعمال ”رازدارانہ انداز میں””کھلے عام” جاری ہے فریاد کس سے کی جائے میڈیا خاموش حکمران تماشائی بلکہ ان کو تو فرصت ہی نہیں اور شہری اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ آنکھوں دیکھنے کے باوجود اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ میرے خیال میں اتنا کافی ہے ورنہ تفصیلات اوربھی تھیں جن کو کسی اور وقت کے لئے ا ٹھا رکھتے ہیں۔میں ایک مرتبہ پھرمیڈیا ہی کو قصورار ٹھہرانا چاہوں گی کہ میڈیا نے جب سے واچ ڈاگ کا کردارادا کرنا چھوڑ دیا تو خود بھی بے وقعت ہو گئی اور اس کی وساطت سے ماضی میں جس طرح عوامی مسائل کی نشاندہی اور حل کی خدمت ہوتی رہی اس سے بھی محروم ہو گئی ۔ میڈیا اگر سیاستدانوں کا آلہ کار نہ بنا ہوتا اور میڈیا میں سرمایہ کاری اور میڈیا کے ادارے خرید کر ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی مزاحمت اور روک تھام ہوئی ہوتی تو آج میڈیا اس مقام پر نہ ہوتا کسی بھی شعبے اور طبقے میں ملی بھگت اور غلط افراد کا تسلط اچھا نہیں ہوتا مگر جہاں میڈیا جیسے ادارے بھی اس سے محفوظ نہ ہوں تو پھر عوام کی حقیقی اور موثر آواز نہیں بنا جا سکتا ۔ اب پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ چکا ہے کہ اس کی واپسی ممکن نہیں البتہ سول سوسائٹی کو اب مضبوط اور فعال بن کر سامنے آنا ہوگا اپنے مسائل کے حل کے لئے لوگوں کو اچھے لوگوں کوآگے لانے کی ذمہ داری پوری کرنا ہو گی سول سوسائٹی فعال اور متحرک ہوجائے اور مختلف شہری وسماجی مسائل کے حوالے سے آواز بلند ہونے کی ریت ڈل جائے تو عام آدمی کو امیدکی کن نظر آنے لگے گی ورنہ حالات نے مایوسی کو اس سطح پر پہنچایا ہے جہاں سوائے اندھیروں کے کچھ نہیں ۔ حیات آباد خیبر پختونخوا کے دارالحکومت کا اچھا اور تعلیم یافتہ و باشعور آبادی والاعلاقہ ہے جہاں کے مکین خال خال اپنی آواز بلند کرتے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ان کو اپنی آواز میں قوت لا کر معاشرے کو اس طرف متوجہ کرنے کی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے عوام کی آواز اور عوام کی طاقت نظر انداز کرنے والی چیز نہیں لیکن مشکل امر یہ ہے کہ خود عوام کو ہی اپنی اس قوت کا احساس نہیں اور دوسروں کے درپر بھٹک رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے بلاتاخیراقدامات کی ضرورت