مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

کل شب چند دوستوں کی محفل جمی ہوئی تھی کہ کسی نے موضوع سے ہٹ کر مُلک کی سیاسی صورتحال پہ بات شروع کی تو ہمارے پروفیسر دوست نے اُسے بات کرنے سے منع کیا اور کہا کہ چھوڑو بہت تبصرے اور تجزئیے ہو چکے ہیں ۔ ہر روز کوئی نہ کوئی افلاطون مرض کی تفصیلات بتا رہا ہوتا ہے ، خود ساختہ ماہرین و تجزیہ نگار اپنے اپنے طور پر علاج کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہر شخص اپنے ہی گمان کا شکار ہے ، کوئی کہتا ہے جب تک یہ نظام نہیں بدل جاتا تب تک موجودہ صورتحال میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آ سکتی ، کوئی کتے کو کنوئیں سے باہر نکالنے والی بات کرتا ہے کہ یوں صاف پانی کا حصول ممکن ہوگا ۔ اب اگر اتنے افلاطونوں اور ماہرین کی موجودگی میں بھی حالات کو سدھارنے اور سنبھالنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سیاسی اور سماجی بد حالی کی وجہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مُلک کے قیام سے اقتدار کا سنگھاسن سنبھال رکھا ہے اور وہ جو اختلاف کے نام پر اقتدار کی ہوس لیے ہوئے ہیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ سرکاری عہدوں پہ براجمان بیوروکریسی بھی شامل ہے جنہیں قومی مفادات سے کہیں زیادہ اپنے مراتب اور آسائشیں عزیز ہیں ۔ پروفیسر نے بڑی دردمندی سے کہا کہ مَیں اُن کرو ڑوں افراد میں شامل ہوں جو محنت اور ایمان داری سے اپنا فرض نبھاتے ہوئے بچوں کی پرورش کر رہا ہوں مگر اس میں شبہ نہیں کہ ہماری مجبوری اور مفلسی سے فائدہ اُٹھانے والے یہ عناصر اپنی قومی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے بے نیاز ہو چکے ہیں ۔ اُنہوں نے مرض بڑھنے کے کئی اسباب بیان کیے ۔ آج کالم لکھنے بیٹھا تو مُلکی حالات کے تناظر میں پروفیسر صاحب کی باتیں دل میں کُھلنے لگیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ قدم قدم پر نا اہلی ، نالائقی اور عقل و
فہم سے عاری فیصلوں اور اس کے نتائج پر مبنی ہے ۔ یہاں کہنے کو جمہوری حکومت بھی رہی اور آمریت بھی ۔ اگر آمریت میں ظلم و ستم ہوا ، ہزاروں غلطیاں ہوئیں تو سیاسی حکومتوں نے بھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ۔ کسی نے بھی دونوں ادوار میں ناکامیوں کا دانشمندانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی سیاسی حکومت کے نتیجہ میں مارشل لا ظہور پذیر ہوا جو گیارہ سال تک طول پکڑ گیا ۔ قوم کو صنعت اور دیگر شعبوں میں ترقی کی نوید تو دی گئی مگر سیاسی میدان میں مکمل ناکامی ہوئی ، آخر کار مُلک دو لخت ہو گیا ۔ جمہوری دور آیا جس میں پہلا متفقہ آئین بنا، پارلیمنٹ وجود میں آئی لیکن بنیادی طور پر جن کاموں کی اہمیت و ضرورت تھی جیسے مُلک ٹوٹنے کی وجوہات معلوم کرنا، ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا، دو جنگوں کے نتیجہ میں فوج کی قومی تقاضوں کے مطابق تنظیم نو کرنا ،انتقام کی بجائے اہل سیاست کے ساتھ اشتراک کی روایت ڈالنا، ان پر کوئی توجہ نہ دی گئی ۔ انتخابات میں دھاندلی کا شور اُٹھا اور پھر مارشل لا آگیا جس کے طویل دور میں ہر برائی نے اس مُلک میں جنم لیا ۔ آئین منسوخ اورسر عام کوڑے۔ سیاست کو دار پر چڑھایا گیا اور آمریت حادثہ کا شکار ہوئی ۔اس کے بعد ایسا دور آیا جس میں ایک سیاسی حکومت دوسری سیاسی حکومت سے بر سر پیکار رہی ۔ اقربا پروری ، لوٹ کھسوٹ ، اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت اور سیاست میں بد زبانی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ۔آخر معاملات طے ہوئے تو ایک سیاسی جماعت کو اسمبلی میں دو تہائی کی اکثریت حاصل ہوئی
مگر فوج کے ساتھ تصادم ہوا ، حالات بگڑ ے اور پھر ایک جنرل بر سر اقتدار آگیا ۔ اس مرتبہ افغانستان میں امریکی مداخلت کی حمایت کرنے پر قوم نے بم دھماکوں ، خود کش حملوں اور نقل مکانی کے بڑے عذاب جھیلے ۔ عدلیہ کی حکومت سے محاذ آرائی اور جج صاحبان کی معطلی و بحالی ہوئی۔
مُلک افراتفری کا شکار رہا ، آخر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کو مل بیٹھے ۔ انتخابات ہوئے ، جس کے نتیجے میں ہر دو جماعتیں بر سر اقتدار آئیں ۔ جہاں کچھ اچھے کام کیے وہاں بہت سی غلطیاں بھی سر زد ہوئیں ، جو آئینی ، قانونی اور انتظامی امور آپس میں بیٹھ کر طے کرنے تھے وہ نہ ہوئے اور ہر حکومت میں وزرائے اعظم کو معزولی ، تا عمر نا اہلی ، مُلک بدری ، قید وبند اور قتل ہونے کا سامنا ہوا ۔
اس عرصہ میں عوامی ترجیہات اور ضروریات پہ کوئی خاص توجہ نہ دی گئی ۔سیاسی لیڈروں کا ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی اور بد کلامی کا سلسلہ جاری رہا ۔ ایک منظم طریقہ سے اہل سیاست کی کردار کشی شروع ہوئی جس میں میڈیا پیش پیش رہا اور ایک سیاسی جماعت نئے بیانیہ کے ساتھ اس قدر مقبول ہوئی کہ وفاق اور تین صوبوں میں اسے اقتدار ملا ۔ ہاں مگر حکومت بنانے میں در پردہ کردار وہی تھے اور طو ر طریقہ بھی وہی تھا جو اس سے قبل تمام حکومتوں کے بنانے میں رہا ۔ تبدیلی اور دیگر کھوکھلے نعروں میں سے کچھ بھی نہ ہو سکا ۔ اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک نے انہیں اقتدار سے محروم کر دیا ۔ اس کے بعداقتدار چھیننے بچانے ، اداروں کو ملوث کرنے ، الزامات لگانے اور انتقام کی ایسی آگ بھڑکی جو ابھی تک بجھنے میں نہیں آ رہی ۔ پروفیسر ٹھیک ہی کہتا ہے کہ مرض کی تشخیص تو ہو چکی مگر ہر ایک اپنے طور پہ علاج کر رہا ہے ، کوئی بھی علاج کی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ، بس ایک ہی جواز پیش کیا جاتا ہے کہ اکیلے ہم ہی نہیں اور بھی اس بگاڑ کے ذمہ دار ہیں ۔ گناہ سے بد تر گناہ کا یہ جواز ہے کہ اوروں کا دامن بھی پاک نہیں ۔پرانا واقعہ ہے کہ کراچی میں ایک بزرگ سیاست دان کی بیٹی کے گھر کچھ لوگ گھس گئے اور خاتون خانہ کو ہوس کا نشانہ بنایا ۔ اس گھناونے جرم کا الزام مرحوم صدر مملکت اسحاق خان کے داماد پر لگایا گیا ، صحافیوں نے جب اُن سے اس بارے پوچھا تو مرحوم نے بڑی ترشی سے جواب دیا ” میرے داماد کو چھوڑئیے ، اوروں کے داماد کیا کر رہے ہیں ؟” مرحوم صدر کا یہ جواب تاریخی حیثیت رکھتا ہے ، اس سے صرف اُن کے ذاتی رد عمل کا نہیں بلکہ ہمارے اہل سیاست ، اُن کے حواری تجزیہ نگاروں ، مداحوں اور پورے معاشرے کی خبر ملتی ہے ۔ ایسے ہی شرمناک جواز ، سازشوں ، بد عنوانیوں ، اقتدار پرستی اور ذاتی مفاد کے باعث مرض بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ جمہوریت یہاں ہمیشہ لٹی پٹی رہے گی ، حزب اقتدار اور حزب اختلاف پر خاندانی گرفت قائم ہے ، عہدوں کی بندر بانٹ جاری ا ورموقع پرست عناصر اقتدار کے لیے اب پھر متحرک ہیں ۔ عوام کی نہ پہلے سنی گئی اور نہ اب ، بس گھروں ، دفتروں اور بازاروں میں یہ باتیں ہوتی رہیں گی ۔ کسی معاشرہ کے انحطاط کی اس سے واضح شہادت کیا ہو گی ؟

مزید پڑھیں:  بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا المیہ