جنوبی اضلاع میں طوفان کی تباہ کاریاں

خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع بنوں، لکی مروت، کرک اور سرائے نورنگ و ملحقہ علاقوں میں طوفان باد و باراں کے باعث دو درجن سے زیادہ افراد جاں بحق جبکہ سوا سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہوگئے، طوفانی بارشوں اور شدید آندھی سے دیواریں گرنے، چھتیں منہدم ہونے سمیت بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی نے مواصلات کے نظام کو بھی درہم برہم کردیا ہے جبکہ انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ جانور بھی اس تباہی کی زد میں آگئے ہیں جبکہ کئی مقامات پر درخت بھی جڑوں سے اکھڑنے کی وجہ سے صورتحال بہت گھمبیر ہوچکی ہے، نگران وزیراعلیٰ محمد اعظم خان نے آندھی، طوفان، بارش اور ژالہ باری سے ہونے والے نقصانات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کی ہدایت کردی ہے اور چیف سیکرٹری اور نگران وزراء پر مشتمل ٹیم نے متاثرہ علاقوں کا دورہ شروع کردیا ہے۔ ادھر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی زاہد اکرم درانی نے جن کا تعلق بنوں سے ہے وزیراعظم شہباز شریف سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے انہیں جانی و مالی نقصان کے بارے میں آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اوراین ڈی ایم اے حکام کو ہنگامی اقدامات کی ہدایت کی اور طوفان باد و باراں سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات پر افسوس کا اظہارکیا۔ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی زاہد اکرم درانی نے وزیراعظم سے متاثرین کیلئے مالی امداد کا مطالبہ کیا جبکہ وزیراعظم نے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی، امر واقعہ یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کی کارکردگی کے بارے میں کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے کہ اتنے شدید طوفان اور آندھی آنے سے پہلے کیا اس نے کوئی الرٹ جاری کیا تھا یا نہیں اور اگر موسمیات والوں نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے عوام کو خبردار کردیا تھا تو متعلقہ حکام نے اس حوالے سے عوام کواحتیاطی تدابیر اختیار کرنے کیلئے اقدام اٹھائے تھے یا نہیں حالانکہ آندھی اور طوفان کی راہ میں انسانی اقدامات پوری طرح تو مزاحم نہیںہو سکتے پھر بھی ممکنہ طور پر کچھ نہ کچھ حفاظتی اقدامات تو اٹھائے جاسکتے ہیں اور جس طرح جانوروں کے ریوڑ بھی آندھی کی وجہ سے دیواریں گرنے سے ہلاک ہوگئے ہیں، انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرکے جانوروں کے ضیاع کو روکا نہیں تو کم سے کم کیا جاسکتا تھا۔ این ڈی ایم اے حکام کی ذمہ داری تھی کہ وہ عوام کو بروقت خبردار کرکے انہیں حفاظتی تدابیر اختیار کرنے میں مدد فراہم کرسکتے تھے، بہرحال جو تباہی آنی تھی وہ تو آچکی ہے اور اس پر افسوس ہی کیاجاسکتا ہے لیکن ہونے والے نقصانات کا ا زالہ کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے اور جلد سے جلد زندگی کو معمول پر لانے کیلئے حکومتی تعاون بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں نہ صرف نگران صوبائی حکومت ضروری فنڈز کا فوری اجراء کرکے متاثرین کی بحالی کیلئے اقدام اٹھائے بلکہ جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو مالی امداد کا اعلان کرکے ان کی دادرسی کرے، زخمیوں کو فوری طبی امداد اگر مقامی سطح پر نہ ہوسکے یعنی چھوٹے ہسپتالوں میں سہولیات موجود نہ ہوں تو انہیں جلدازجلد صوبے کے بڑے ہسپتالوں میں پہنچاکر ضروری طبی امداد مہیاکی جائے، صوبے میں صحت کارڈ کی سہولتیں جاری کرنے کیلئے صوبائی حکومت پہلے ہی متعلقہ انشورنس کمپنی کو ضروری فنڈز فراہم کرچکی ہے اس لئے بڑے ہسپتالوں میں اب شدید زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے، ان حالات میں نگران وزیراعلیٰ کا صرف وزراء اور چیف سیکرٹری کو صورتحال کا جائزہ لینے اور اپنی سطح تک ضروری اقدامات اٹھانے کو اگرچہ درست قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے لیکن بہتر ہوگا کہ وزیراعلیٰ خود بھی متاثرہ علاقوںکا دورہ کریں بہ ذات خود حالات کا جائزہ لیں بلکہ وزیراعظم کو بھی دعوت دیں کہ وہ تشریف لائیں صورتحال کو خود ملاحظہ کریں اور متاثرین کیلئے ہر قسم کی امداد کااعلان کرکے ان کی دادرسی کا سامان کریں، متاثرین کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں ہر ممکن تعاون کو یقینی بنائیں، مسمار ہونے والے گھروں کی تعمیر نو، فصلوں کی بربادی سے ہونے والے نقصانات کا اژالہ کرنے کیلئے مناسب امداد کا اعلان کرکے متاثرین کی دادری کریں، اس ضمن میں نجی شعبے میں سرگرم سماجی امدادی تنظیمیں اور ادارے بھی فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امدادی کارروائیوں میں بھرپور کردار ادا کریں جبکہ عوام اپنی مدد آپ کے تحت بھی مقامی سطح پر باہمی تعاون سے صورتحال کو بہتربنانے میں کردار ادا کرنے پر توجہ دیں۔

مزید پڑھیں:  آبی وسائل کا مؤثر استعمال