کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے

جو چپ رہے گی زبان خنجر، لہو پکارے گا آستین کا ، بالآخر آستیں کا لہو بول پڑا ہے’اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑنے والے کی فریاد جب عرش سے ٹکراتی ہے تو عرش والے کو مظلوم فریادیوںکی پکار پر توجہ دینے اور فریادی کی داد رسی کا سامان کرنا پڑ تا ہے’ اس کے بعد آستین کا لہو پکاراٹھتا ہے ‘ پانامہ ، اقامہ اور اس حوالے سے ماضی قریب میں عدلیہ کے بعض کرداروں نے جو مذموم کردار ادا کیا، اس کے حوالے سے عدلیہ کے اندر ہی سے ”گواہیاں” سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔جسٹس طارق مسعود نے گزشتہ روز پانامہ سے متعلق کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پانامہ کیس کچھ اور ہی معاملہ تھا۔ 436 افراد میں سے صرف ایک خاندان کو الگ کرکے کیس چلایا گیا ۔ فاضل جسٹس نے کہا کہ وہ کچھ کہنا نہیں چاہتے ، مگر ایسا کیا ہو گیا تھا کہ24 سماعتوں کے بعد ایک خاندان کے سوا دیگر تمام افراد کے کیسز الگ کر دیئے گئے تھے۔ بنچ کے دوسرے رکن جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہاں بیٹھ کر بہت سی باتیں کرنے کو دل چاہتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے ۔ فاضل جج صاحبان کے ریمارکس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
اب یہ الگ بات ہے کہ جج صاحبان جو کہنا چاہتے تھے اور نہ کہہ سکے تو ان سے پوری دنیا واقف ہے اور اس کو باکمال شاعر نظیر صدیقی نے یوں واضح کیا ہے کہ
”تھا”فیصلہ خود باعث توہین عدالت
کچھ کہہ کے میں تو ہیں عدالت نہیں کرتا
جسٹس طارق مسعود نے جماعت اسلامی کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ کا مقصد صرف ایک خاندان کے خلاف کیس چلانا تھا؟ ایف بی آر ایف ‘ایف آئی اے ، نیب اور سٹیٹ بنک موجود ہیں، کیا ریاستی اداروں کو بند کرکے سارے کام سپریم کورٹ سے ہی کرالیں، اس پر جماعت اسلامی کے وکیل راجہ اشتیاق نے کہا کہ تحقیقاتی اداروں کا حال یہ ہے کہ3سال پہلے نوٹس ہوا اور اب تک جواب نہیں آیا’ہمارے خیال میں تو جماعت اسلامی کے وکیل نے ”سوال گندم، جواب چنا” کے محاورے میں پناہ لینے کی کوشش کی ہے اور دراصل وہ جو فاضل جج صاحبان نے ریمارکس دیئے ان کا جواب وہ جماعت اسلامی کے وکیل سے حاصل کرکے معاملے کو اس کے درست پس منظر کے تناظر میں واضح کرناچاہتے تھے مگر وکیل صاحب کے آئیں بائیں شائیں کی وجہ سے جج صاحبان کو بھی صورتحال پرپردہ ڈالنے پراکتفا کرنا پڑا ‘ یعنی بقول ابن انشاء ہم ہنس دیئے ‘ ہم چپ رہے ‘ منظور تھا پردہ تیرا ‘ تاریخ شاہد رہے گی اور اس بات کی گواہی دے گی کہ پانامہ کے حوالے سے کیس کو سپریم کورٹ لے جانے اور بعد میں شریف فیملی کے خلاف (الگ کرکے ) علیحدہ سے کارروائی پر سپریم کورٹ کو مجبور کرنے میں جماعت اسلامی نے جو کردار ادا کیا ‘ وہ شریف فیملی پر ”ظلم” نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان کے خلاف ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی سازش تھیں ‘ جس میں جماعت اسلامی نے ”پراکسی” کا کردار ادا کیا ‘ عمران خان تو بعد میں ثاقب نثار کے کہنے پر اس میں شامل ہوئے ‘ اب یہ تمام حقائق سامنے آرہے ہیں اور سازش کی پرتیں کھلتی جارہی ہیں اور اس گھنائونی سازش کے سارے مکروہ کردار ایک ایک کرکے سامنے آتے جارہے ہیں۔ ناانصافی کی حد تو یہ ہے کہ جس شخص کا نام تک اپانامہ میں نہیں تھا یعنی نواز شریف ‘ اسے ”گھسیٹ کر” اس میں شامل کر دیا گیا ‘ اور پانامہ کی زنبیل میں سے بھی اقامہ”برآمد” کرکے بیٹے سے ”تنخواہ” نہ لینے کی ایک ”کالی شق” بلیک لا ڈکشنری میں تلاش کرکے زبردستی ”مجرم” بنا کر تاحیات نا اہلی کی سزا سنائی گئی ۔ اس پر دو واقعات یاد آگئے ہیں ‘ ایک تو ہمارے ہمسائے افغانستان میں تقریباً پون صدی پہلے کا ایک واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص دور دراز علاقے کابل کسی ضروری کام کی وجہ سے آیا تھا ‘ کام ختم کرکے شام کے وقت واپسی کا سفر اختیار کرتے ہوئے اس کا گزر مشہور ”پل چرخی ” جیل کے قریب سے ہوا تو وہاں 21 قیدیوں کو صبح کے وقت”مشقت” کی غرض سے لانے کے بعد واپس جیل لے جایا جارہا تھا تو ایک قیدی بھاگ چکا تھا عسکر (سپاہیوں کو وہاں عسکر کہتے ہیں) قیدیوں کو قطارمیں کھڑا کرکے بار بار گنتی کر رہے تھے تو وہ اکیس کی بجائے بیس نکل آتے ‘ سپاہیوں نے اس خوف سے کہ ایک قیدی کے بھاگنے کا کیا جواب دیں گے ‘اس مسافر کو یہ تماشا دیکھتے ہوئے گنتی پوری کرنے کے لئے پکڑ کر جیل کے اندر لے گئے وہ بے چارہ کئی برس تک جرم بے گناہی کی سزا بھگتا رہا ‘ ایک روز افغان بادشاہ جیل کے معائنے کے لئے آیا اور قیدیوں کو قطار میں کھڑا کرکے پیش کیا گیا ‘ بادشاہ ہر ایک سے اس کے جرم کی نوعیت اور سزا کی مدت معلوم کرکے کچھ کو رہا کرنے کا حکم دے رہا تھا ‘ جب اس مسافر کا سامنا ہوا اور بادشاہ نے اس کے جرم کی نوعیت پوچھی تو اس نے جواب دیا ‘ بادشاہ سلامت میں بست ویک کا قیدی ہوں ‘ بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا یہ بست ویک کونسا جرم ہے ؟ قیدی نے کہا ‘ حضور کئی سال پہلے میں شام کا وقت قیدیوں کی واپسی کا نظارہ کر رہا تھا تو ایک قیدی کی بھاگنے کی وجہ سے باقی ”بست” یعنی بیس رہ گئے تھے ‘ انہوں نے گنتی پوری کرتے ہوئے مجھے بست ویک یعنی 21 واں قیدی قرار دیتے ہوئے قید کر لیا ۔ اس کے علاوہ تو میرا کوئی جرم نہیں ہے ‘ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا بھی قصور 436 میں سے 435 کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے 436 کے ہندسے کی زد میں آکر پانامہ میں سے اقامہ کی تلاش کا شکار ہونا تھا جس کی سزا وہ اب تک بھگت رہے ہیں ‘ اسی حوالے سے ایک مشہور ناول کی کہانی بھی کچھ اسی سے ملتی جلتی ہے ‘ اس ناول میں بھی ایک قتل کے مقدمے میں ایک بے گناہ کو بیس سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے ‘ سزا کے آخری چند دنوں میں جب اصلی قاتل گرفتار ہو کر عدالت کے سامنے لایا جاتا ہے اور وہ اپنے جرم کااعتراف بھی کرلیتا ہے ‘ تو بے گناہ قیدی کو جیل سے نکال کر عدالت کے روبرو پیش کر دیا جاتا ہے اور اسے قتل کے جرم سے باعزت بری کرنے کاحکم دیا جاتا ہے تو وہ عدالت سے سوال کرتا ہے ‘ جناب جسٹس مجھے اتنی مدت بعد معاف کرتے ہوئے کتنی آسانی سے کہہ دیا گیا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا یوں میری عزت بحال کر دی گئی ہے ‘ مگر کیا فاضل عدالت میری جوانی کے وہ بیس سال مجھے واپس کر سکتی ہے ‘ جو میں نے جرم بے گناہی میں اپنے بیوی بچوں سے دور جیل کی کال کوٹھڑی میں گزارے اور میرے خاندان والوں نے میرے بارے میں کوئی خبر نہ رکھتے ہوئے اذیت سے دوچار ہو کر خدا جانے کن مشکلات میں گزارے ہوں گے ‘ اسی حوالے سے انگریزی میں ایک مقولہ بہت مشہور ہوا کہ Justice delayed is Justice denied یعنی انصاف میں تاخیر بھی انصاف نہ ملنے کے مترادف ہے ۔یہاں تو نواز شریف کے ساتھ نہیں ‘ پاکستان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کی گئی وما علینا الالبلاغ

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال