یہ پھر بھی راضی نہیں

نئے سال کے میزانیہ میں اگر کسی طبقے کے لئے مراعات کا اعلان کیا گیا ہے تو وہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز ہیں ای او بی آئی کے پنشنروں کے پنشن میں بھی اضافہ ہونے جارہا ہے لیکن اس کے باوجود بعض حلقوں کی جانب سے اسے بھی ناکافی قرار دینے کاحیرت انگیز موقف سامنے آرہا ہے یہ دیکھے بغیر کہ اس ملک میں صرف سرکاری ملازمین ہی متاثر نہیں بلکہ دیکھا تو ان مشکلات کے باوجود وہ بہتر پوزیشن میں ہیں نجی اداروں کے ملازمین اور عام لوگوں کاتو کئی پرسان حال ہی نہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشنوں کے علاوہ مزدوروں کی کم سے کم جو اجرت مقرر کی گئی ہے وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلے میں توقعات سے کہیں کم ہے ۔بجٹ پر پارلیمنٹ میں ابھی بحث ہونی ہے۔مگر توقع کی جا سکتی ہے کہ مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کی اشک شوئی کے لئے حکومت کچھ مثبت اقدامات ضرور کرے گی اور کرنے بھی چاہئیں۔ مگر ملک کے ابتر معاشی حالات کے تناظر میں اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ اور اندرونی بحرانوں کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے جسے روکنے کے لئے حکومت حتی المقدور کوششیں کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرنے کے باوجود اس کی جانب سے امداد ملنے کی توقعات بھی کم ہی ہیں۔ ایسے میں کم آمدنی والے طبقات کے لئے مشکلات ختم ہونے کی بجائے بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔ غریب تو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے پس رہا ہے۔ مگر متوسط طبقہ بھی رفتہ رفتہ ضروریات زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بوجھ تلے دب کر اسی لکیر کی جانب گامزن ہے۔ اس صورتحال میں سرکاری ملازمین کی انجمنوں اور مزدوروں کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ تنخواہوں اور اجرتوں میں سو سے تین سو فیصد تک اضافہ کیا جائے۔ایسا ہونا ممکن نہیں بلکہ حکومت نے اضافہ کا جواعلان کیا ہے اس پر عملدرآمد ہوتو سرکاری ملازمین کو اسے غنیمت جاننا چاہئے یہ ملک صرف سرکاری ملازمین کانہیں دوسروں کابھی حق ہے عوام ہر بار محروم ہی رہے ہیں ان پربوجھ ہی ڈالا گیا ہے۔ ادھر وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہو سکا تو ہم کمر کس لیں گے یعنی اپنے وسائل سے مالی بحران کا مقابلہ کریں گے بے شک ایک خوددار قوم ہونے کے ناطے ایسا ہی کرنا چاہئے مگر اس کے لئے مزید ٹیکس لگانا پڑیں گے جن کا زیادہ بوجھ پسماندہ طبقے پر پڑے گا جسے پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اسلئے پالیسی سازوں کو ان طبقات کے مفاد کو سامنے رکھ کر ہی فیصلے کرنا پڑیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان کی توقعات پر کہاں تک پورا اترتی ہے۔

مزید پڑھیں:  آبی وسائل کا مؤثر استعمال