سیاسی مکالمہ سے انکار کیوں؟

تحریک انصاف کے قائد اورسابق وزیر اعظم عمران خان نے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ ان حکمرانوں کے پاس کچھ اختیار ہی نہیں ان کے ساتھ کیابیٹھوں۔جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ نون لیگ نے واضح کیا کہ مذاکرات وزیر اعظم شہباز شریف سے ہوں گے آپ کیوں اسٹیبلشمنٹ کو بیچ میں لاتے ہیں، تو سابق وزیراعظم نے کہا کہ فیصلہ ساز تو وہ ہیں ۔ان کے ساتھ بیٹھنے کا فائدہ نہیں۔جب ان سے کہا گیا کہ سیاستدانوں کے درمیان ہی تو چارٹر آف ڈیموکریسی ہوا تھا تو عمران خان کا کہنا تھا کہ اب صورتحال مختلف ہے۔سیاستدانوں کے درمیان مکالمہ مذاکرات اور کچھ لو کچھ دو کے معاملات جمہوری سیاست کا حصہ ہوتے ہیں اور اگر سیاستدان ہی سیاستدانوں سے معاملت سے انکار کرنے لگیں تو معاملات کا گھمبیر سے گھمبیر تر ہونا فطری امر ہو گا بعینہ اسی طرح کے حالات کا آج ملک کو سامنا ہے صرف عمران خان ہی نہیں نواز شریف ان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر چکے ہیں انکار کا یہ رویہ جس جانب سے بھی ہو سیاسی تقاضوں اور جمہوری رویے کے منافی ہے سیاستدانوں کو اپنے اس رویے پر نظر ثانی کرنی چاہئے جب تک وہ اس قسم کے رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست کو ذاتی دشمنی کا درجہ دیتے رہیں گے سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا البتہ تحریک انصاف کے قائد کا سیاستدانوں کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو طاقتور قرار دے کر ان سے مذاکرات کا بار بار مطالبہ اور ان کو اصل قوت تسلیم کرنا حقیقت سے جس قدر قریب بھی ہوایک سیاسی رہنما کے طور پراس کا اظہار اپنی جگہ مگران سے مذاکرات قطعی غیرسیاسی خواہش ہے جس کاکسی سیاستدان سے برملا اظہار کی توقع نہیں کی جاسکتی بہرحال افسوسناک رویہ ہے جس کا شکار ہو کر ماضی و حال میں سیاستدان اپنی داڑھی از خود ان کے ہاتھ میں دیتے آئے ہیں اور یہی وہ خرابی کی جڑ ہے جو مل کر اکھاڑنے پر اتفاق کے بغیر درست کرنا ممکن نہیں اسٹیبلشمنٹ کے سہارے قائم و حاصل کردہ حکومتیں کبھی بھی بالادست مقتدر اور پائیدار ثابت نہیں ہوئیں اور آئندہ ہو پائیں گی جب تک سیاستدان آپس میں سیاسی طریقوں پر اتفاق اور میثاق نہیں کریں گے یکے بعد دیگرے ان کو اس طرح کے حالات کا بار بار سامنا ہوتا رہے گا۔

مزید پڑھیں:  اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی ''معراج''