دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ

شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان جھڑپ کے دوران3سپاہی شہید اور3 دہشت گرد مارے گئے۔سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر کارروائی کی واضح رہے کہ گزشتہ ایک سال کے عرصے کے دوران صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں کئی فوجی جوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔اس سے قبل 5 جون کو خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا جس میں 2 اہلکار شہید جبکہ 2 دہشت گرد بھی مارے گئے تھے۔مذکورہ واقعے سے ایک دن قبل بھی خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں دو اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا تھا جبکہ دو دہشت گردی بھی مارے گئے تھے۔اس سے قبل 22 مئی کو خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں خفیہ اطلاع پر کیے گئے آپریشن کے دوران پاک فوج کے 2 جوان شہید ہو گئے تھے جبکہ3دہشت گرد مارے گئے تھے۔دریں اثناء اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1988 میں طالبان پر عائد پابندیوں کی کمیٹی کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی جاری ہونے والی چودھویں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کو سرگرمیاں اور کارروائیاں کرنے کے لیے بااختیار طالبان حکام کے تحت چلنے والے نظام میں کافی آزادی حاصل ہے۔رپورٹ میں لکھا گیا کہ وہ دہشت اس آزادی کا خوب استعمال کر رہے ہیں، افغانستان اور خطے دونوں میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے ۔ طالبان نے امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں قیام امن کے معاہدے کے تحت انسداد دہشت گردی کی دفعات پر کام نہیں کیاجبکہ ٹی ٹی پی طالبان کی جانب سے ملنے والی حمایت کے ساتھ پاکستان میں حملے کر رہی ہے، غیر ملکی دہشت گرد جنگجوں کے گروپ افغانستان کی سرحدوں کے پار خطرہ پیدا کر رہے ہیں ۔افغان طالبان نے رپورٹ کو تعصب سے بھرپور قرار دے کر مسترد کردیادوسری جانب افغان طالبان نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے تعصب سے بھرپور قرار دیا۔طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے آج اپنے بیان میں کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان یو این سلامتی کونسل کی پابندیوں اور اس طرح کی رپورٹس کو تعصب سے بھرپور، خودمختاری اور عدم مداخلت کے اصولوں سے متصادم سمجھتی ہے اور اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان اپنی کمنٹمنٹ پر قائم ہے اور یقین دلاتی ہے کہ افغان سرزمین سے خطے، پڑوسی ممالک اور دنیا کو کوئی خطرہ نہیں ہے، افغانستان کسی کو بھی اپنی سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔پاکستانی سیکیورٹی حکام طویل عرصے سے کہتے رہے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان مخالف مسلح گروپ افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتے ہیں۔طالبان کی تردیدی دعوے کی حقیقت سے قطع نظر حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو زمینی حقائق سے اس رپورٹ کی تصدیق ہوتی ہے کم از کم پاکستان کی حد تک تو اس رپورٹ کی ا صابت سے محولہ مسلسل واقعات کے تناظر میں انکار ممکن نہیں یہ امر بھی خلاف حقیقت نہیں کہ پاکستان کو گزشتہ افغان حکومتوں کے ادوار کے مقابلے میں امن و امان کے حوالے سے زیادہ مشکلات در پیش ہیں اس حققت سے انکار ممکن نہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی متوقع طور پر پاکستان میں حالات بہتر نہیں ہوئے اور یہ پیشنگوئیاں کہ کابل میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی سے پاکستان میں دہشت گردی میں کمی آئے گی حالات کے تناظر میں غلط ثابت ہوئیںکیونکہ اگست 2021ء کے بعد سے حملوں میں کافی سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور یہ حملے مزید مہلک بھی ہوگئے ہیں ۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رپورٹ میں باقاعدہ طور پر اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کہ افغانستان سے متصل صوبے – خیبر پختونخوا اور بلوچستان – دہشت گردی کے اضافے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔مشکل امر یہ ہے کہ اب پاکستان میں ٹی ٹی پی ہو یا کوئی دوسرا گروہ سرگرم ہواس کا اس طرح سے اعتراف نہیں کیا جاتاموخر الذکر نوعیت کے واقعات سے قطع نظر پاک فوج کی منصوبہ بند اور محدود تطہیری مہم کے دوران تسلسل کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی از خود اس امر کا ثبوت ہے کہ دہشت گرد عناصر کی واپسی ہوئی ہے اگر طالبان حکومت کی اس ضمن میں پالیسی سخت ہوتی تو ایسا ہونا ممکن نہ تھا ان کی واپسی کو سرحد پار کرتے ہوئے یقینی نہ بنا سکنے کے جو بھی ہر دو حکومتوں کی سرحدی مشکلات ہوں اگر افغانستان کی حکومت واقعی اپنی سرزمین کا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہ دینے کے وعدے پر کار بند ہے تواسکا تقاضا یہ ہے کہ اپنے ملک میں ان عناصر کے خلاف کارروائی کرے یاکم از کم ان کو اتنا محدود کرے کہ وہ کسی واقعے کی آزادانہ منصوبہ بندی نہ کر سکیں ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کو لفظی طور پر مسترد کرنے کی بجائے عملی طور پر نظر آنے والے اقدامات سے اگر مسترد کیا جاتا اور افغانستان کا پڑوسی ملک مطمئن ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال