وسیب اور وسیب زادوں سے ملاقاتیں

چند دن کے وقفے سے 9 دن امڑی کے شہر ملتان میں بسر کئے، اپنے جنم شہر میں مسافروں کی طرح آنا جانا عجیب تو ہے لیکن کیا کیجئے مسائل زندگی کے ساتھ ہیں، پیاروں کو زحمت دینے پر جی آمادہ نہیں ہوتا، مسافر کو اس کے دوست لئے پھرتے رہتے ہیں، محفلیں سجاتے ہیں، مکالمہ اٹھاتے ہیں ان محفلوں اور مکالماتی نشستوں سے رات گئے فراغت ملتی ہے ایسے میں ہوٹل میں رہنا مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ فقیر راحموں اس لئے خوش رہتا ہے کہ ہوٹل میں رہنے کی وجہ سے ڈانٹ ڈپٹ سے بچے رہتے ہیں، آگے بڑھنے سے قل اپنے وسیب واسیوں اور دوسرے دوستوں کا شکر گزار ہوں جو ہمارے چھوٹے بھائی سید طاہر محمود بخاری کے سانحہ ارتحال پر زحمت کرکے ملتان تشریف لائے، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے اس موسم میں سفر کی زحمت اٹھانے والے دوستوں کیلئے دعاگو ہوں۔ تعزیتی پیغامات بھیجنے اور ٹیلیفون کرنے والے دوستوں کا بھی شکریہ، زندگی اسی احساس کا نام ہے، ہم آگے بڑھتے ہیں، سرائیکی وسیب کی دو سڑکوں کو اس کے باسی سفاک قاتل سڑکیں کہتے ہیں، اولاً مظفر گڑھ علی پور روڈ اور ثانیاً ڈی جی خان راجن پور روڈ۔ پچھلی نصف صدی میں درجنوں بار ان دونوں سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے وہ ساری دعائیں تلاوت کر ڈالیں جو ازبر تھیں، ان سڑکوں کے مسافر دعائوں کی چھائوں میں ہی منزل پر پہنچ پاتے ہیں ورنہ ان پر چلنے والی ٹریفک اللہ توبہ، کبھی کبھی لگتا ہے کہ بسوں، ٹرکوں اور ٹرالوں کے ڈرائیور بینائی سے محروم ہیں، بس ناک کی سیدھ میں گاڑیاں بھگاتے ہیں، یہ دونوں سڑکیں جن شہروں اور قصبوں کو ملاتی ہیں، ان شہروں میں ہم جیسے عام لوگ رہتے ہیں۔ چند درجن سردار وڈیرے، خان اور مخدوم خاندان بھی ہیں۔ یہ خاندان ضلع کونسلوں سے پنجاب اور قومی اسمبلی تک ”ہماری” نمائندگی کا ہر الیکشن میں ”حق” پاتے ہیں، خیر ہو ان کی کہ کبھی انہوں نے ان قاتل سڑکوں کو دو رویہ (ڈبل) کرانے کے لئے ہاتھ پائوں مارے ہوں البتہ ہر الیکشن سے قبل ان سرداروں، وڈیروں، خانوں، گودوں، مخدوموں اور ملک صاحبان کے ”منشی” قاتل سڑکوں کے کنارے آباد شہروں، قصبوں اور بستیوں کے لوگوں کو ”نوید” سناتے ہیں کہ ان کے سردار، وڈیرے، مخدوم، ملک، گودے اور خان وغیرہ نے ڈبل سڑک منظور کرالی ہے، بس روز برپا ہونے والی قیامت چند دن بعد ختم ہونے کو ہے، یہ چند دن نصف صدی میں بھی پورے نہیں ہوئے، ٹریفک کا دبائو ان دونوں سڑکوں پر ہے، ڈی جی خان راجن پور والی سڑک انڈس ہائی وے کہلاتی ہے اور مظفر گڑھ علی پور والی قومی شاہراہ ہے، چلیں ملتان سے علی پور جانے والوں کو اب ایک سہولت موٹروے کی مل گئی، اوچ شریف کے انٹرچینج سے نکلیں اور تقریباً 25کلو میٹر واپسی کا سفر کرکے علی پور پہنچ جائیں لیکن علی پور ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل ہے تحصیل جتوئی اسی علی پور کی کوکھ سے نکلی ہے، دونوں تحصیلوں سے روزانہ سینکڑوں ہزاروں لوگ ضلعی صدر مقام مظفر گڑھ جاتے ہیں، جان ہتھیلی پر رکھے دعائیں پڑھتے کیونکہ واپسی کی ضمانت بالکل نہیں، کبھی کبھی تو خیر سے منزل پر پہنچ بھی نہیں پاتے۔ انڈس ہائی وے اور قومی شاہراہ کا یہ حصہ مظفر گڑھ علی پور روڈ کب دو رویہ ہوگا؟ یہ سوال نصف صدی سے ان سڑکوں پر دوران سفر سنتا ہوں یا پھر میزبانوں سے جن سے ملنے کی خواہش میں سفر کرنا پڑتا ہے، گزشتہ اتوار کو ملتان سے علی پور تک کا سفر بذریعہ موٹروے کیا، اس میں اوچ شریف سے علی پور تک کی سنگل سڑک کا سفر بھی شامل ہے، سفر کے دوران پروفیسر تنویر خان، مبشر علی فاروق سے بے پناہ باتیں ہوئیں، دنیا جہان کے موضوعات تھے اور سوالات کی قطار اندر قطار۔ طالب علم نے مطالعے، مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں جوابات عرض کئے۔ یہ سفر ہمارے بلکہ گاڑی میں سوار چاروں مسافروں کے عزیز جاں دوست زبیر فاروق کی دعوت ولیمہ میں شرکت کے لئے تھا، جون کی گرمی، سفر اور ولیمہ، مسافروں پر کیا گزرتی ہے مسافر جانے دولہا میاں تو اس کے ذمہ دار نہیں البتہ انہوں نے ولیمہ گاہ میں ٹھنڈے موسم کا معقول انتظام کررکھا تھا، زبیر فاروق ہمارے عزیز جاں دوست ہیں، مظفر گڑھ کے ٹیکنیکل کالج میں لیکچرار۔ من موجی اور کتاب دوست ہونے کے ساتھ دوستوں کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں، پروفیسر تنویر خان، زبیر فاروق اور مبشر علی فاروق ایڈووکیٹ کے استاد تھے، استاد تھے اس لئے لکھا ہے کہ اب ان میں دوستی کا رشتہ ہے، مجھے جب بھی امڑی کے شہر کا سفر کرنا پڑتا ہے پروفیسر تنویر خان ایک نشست کا اہتمام ضرور کرتے ہیں دوستوں کے لاڈ وہ خوشی سے اٹھاتے ہیں، کبھی اپنی قیام گاہ پر اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ اعلان کردیتے ہیں، شاہ جی میں کھانا لے کر آپ کے ہوٹل آرہا ہوں ہماری قیام گاہ پر ان کا لایا طعام خوش خوراکی کی دعوت دیتا ہے پھر جو مجلس برپا ہوتی ہے وہ کئی گھنٹوں تک چلتی ہے، اس بار کی مجلس علی پور جانے اور ملتان واپسی کے سفر میں گاڑی میں ہی برپا ہوئی، درمیان میں عزیزم مہدی گبول نے تقویٰ ہوٹل پر چائے کی دعوت دی جو دیگر مسافروں نے بھی خوشی سے قبول کی، تقویٰ ہوٹل پر چائے نوشی تو ایک بہانہ تھا اصل قصہ ایک محفل برپا کرنے کا تھا جو خوب جمی اور خوب رہی، یہ محفل اصل میں پروفیسر تنویر خان صاحب کے شاگردوں کا اجتماع تھا، سوال و جواب کی اس محفل میں عصری سیاست کے ساتھ دیگر موضوعات بھی تھے جو آج کی نئی نسل اور بالخصوص عملی زندگی کے میدان میں اترنے والوں کے ذہنوں میں ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ سوال اور ان کے جوابات ضبط تحریر میں لانا قدرے مشکل ہے، وجہ وہی ہے پتہ نہیں کب کس کے ظرف کا پیالہ چھلک جائے، البتہ یہ حقیقت ہے کہ سرائیکی وسیب کی عملی زندگی کے میدان میں اتری نسل کے پاس سیاست، تاریخ، وسیب کی حالت، مذہب و عقائد اور دیگر موضوعات پر سوالات کا انبار ہے، ایسے میں کوئی ہم سا ادنیٰ طالب علم بھی ان کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ سوال اٹھاتے ہیں، مزید خوشی یہ ہے کہ کج بحثی نہیں کرتے، اتفاق اور اختلاف کا اظہار شائستگی سے کرتے ہیں، حالیہ قیام ملتان کے دونوں مرحلوں میں کامریڈ استاد منیرالحسینی، برادر عزیز سید سجاول عباس نقوی، مہر شاہد، رائو احمد اور دوسرے دوستوں سے ملاقات بلکہ ملاقتیں خوب رہیں، عزیزم سجاول اور مہر شاہد و منیرالحسینی آجکل ”اے کے پراپرٹیز” کے نام سے کاروبار شروع کئے ہوئے ہیں، فقیر راحموں نے پراپرٹی ڈیلروں کے عمومی طریقہ واردات پر اپنے تخلیق کردہ لطاف بھی ان دوستوں کو پیش کئے، دو تین ملاقاتوں میں دوسرے موضوعات پر خوب باتیں ہوئیں، سجاول اور منیرالحسینی بضد تھے کہ بس بہت ہوگیا اب مستقل طور پر ملتان واپسی کا سوچا جائے، عرض کیا صرف ملتان میں رہنا جینا کافی نہیں ضروریات اور مسائل تو ہوں گے، جنم شہر میں آخری ماہ سال بیتانے کی آرزو شدید ہے مگر فقط آرزو کے سہارے جینا مشکل ہے۔ تلخ حقیقت یہی ہے مزدور کو جنم شہر میں مناسب مزدوری ملتی تو دربدر کیوں ہوتا، کئی برسوں سے جنم شہر میں جینے بسنے کی آزوئوں کو تھپک تھپک کر سلاتا رہتا ہوں، اس بار ایک طویل وقفے کے بعد ضلع کچہری میں یحییٰ ممتاز ایڈووکیٹ کے چیمبر میں پڑائو ڈالا کچہری کے وکیل دوستوں نے خوب گلے شکوے کئے کہ ملتان آکر بھی اطلاع نہیں دیتا، بابر سوئیکارنو ایڈووکیٹ سے حسب سابق نوک جھونک رہی، بابر ہمارے مرحوم دوست عارف محمود قریشی ایڈووکیٹ کا صاحبزادہ ہے، ضلع کچہری میں مرحوم عزیز نیازی ایڈووکیٹ کے چیمبر کے بعد یحییٰ ممتاز کا چیمبر دوستوں کا ”ہائیڈ پارک” ہے۔ وہ باتیں بھی کی جاسکتی بلکہ ہوتی ہیں جو باہر کی دنیا میں شجر ممنوعہ ہیں۔ ہمارے یہاں لوگوں کا مذہبی علم جمعہ کے خطبوں کے ارشادات تک محدود ہے، اپنے اپنے فرقے کی مسجد میں جمعہ پڑھنے اور مولوی کا خطبہ سننے والے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دین و عقائد کو سنبھال رکھا ہے ورنہ تو یہود و ہنود نجانے کیا کر گزرتے۔ وسیب اور وسیب زادوں کے درمیان گزرے9 روز کا مختصر احوال یہی ہے۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی