ارباب نیازسٹیڈیم کی تزئین میں تاخیر؟

خیبرپختونخواکے واحد بین الاقوامی ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر و تزئین کیلئے دی جانے والی ایک اور ڈیڈ لائن بھی ختم ہوگئی جس کے بعد اب سٹیڈیم کی حسب ضرورت و منشاء تکمیل کے لئے مزید ایک سال کی مدت کی ضرورت ہے’ سٹیڈیم کی تعمیر دسمبر 2017ء میں شروع ہوئی تھی جسے تین سال میں مکمل کیا جانا تھا تاہم اب ساڑھے پانچ سال بعد بھی اسے مکمل نہیں کیا جا سکا ‘ محکمہ کھیل کے ذرائع کے مطابق فنڈز نہ ہونے سے دبئی سٹیڈیم کی طرز پر لائیٹنگ کا عمل شروع نہیں کیا جا سکا ‘ انٹرنیشنل معیار کی رنگ لائٹ جو کہ اس وقت صرف دبئی سٹیڈیم میں ہیں کی تنصیب فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں اور پانچ سال گزرنے کے باوجود بھی سٹیڈیم مکمل نہیں ہوسکا ہے، ارباب نیاز سٹیڈیم کی تعمیر کے لئے چودہ جون کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی مگر اب مزید تقریباً ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا، امر واقعہ یہ ہے کہ ارباب نیاز سٹیڈیم میں عالمی سطح کے کئی ٹیسٹ میچز کے علاوہ ون ڈے میچز میں بین الاقوامی شہرت کے کھلاڑی اور اہم ممالک کی ٹیمیں کھیلتی رہی ہیں اور پشاور کا نام عالمی سطح پر روشن ہو رہا ہے تاہم ملک اور خصوصاً پشاور میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نتیجے میں جو دہشت گردانہ واقعات ہوتے رہے ان کی وجہ سے نہ صرف پاکستان میں ایک مدت تک بین الاقوامی کرکٹ ختم ہوگئی تھی بلکہ پشاور بالخصوص منفی رجحانات کا شکار ہونے کے باعث عالمی کرکٹ ٹیموں نے یہاں آنے سے انکار کیا’ اس کے بعد مقامی سطح پر ممکنہ کھیل و ثقافت کی عدم توجہی کے باعث ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم ویرانی کا شکار بنتا چلا گیا تاہم پاکستان میں کرکٹ کے احیاء کی کوششوں کے باعث پشاور کے عوام کے پر زور اصرار پر ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش پر توجہ دی گئی لیکن بدقسمت سے ابتدائی طور پر تین سالہ منصوبے کو ضروری فنڈز فراہم نہ کئے جانے کی وجہ سے ڈھائی سال تک لٹکنا پڑا جبکہ اب اسے مزید ایک سال کا عرصہ درکار ہے اور اس کی وجہ بھی وہی فنڈز کی عدم دستیابی ٹھہرائی جا رہی ہے’ اسے پشاور کے عوام اور کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ناانصافی ہی قرار دیا جاسکتا ہے’ اس سلسلے میں پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ بھی اگر توجہ دے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے کیونکہ اس سٹیڈیم میں عالمی سطح کے میچز منعقد ہونے سے اسے بھی کمائی کا موقع ملے گا، امید ہے اعلیٰ سطح پر اس مسئلے کوجلد از جلد حل کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال