جھوٹ’ آدھا سچ اور پورا سچ کے مراحل

ہمارا اپنا ایک تازہ شعر ہے جس کی بنیاد پر غزل”زیر تعمیر ” ہے یعنی ابھی مکمل نہیں ہوئی اور شعر بلکہ غزل کا مطلع یوں ہے کہ
کہا تھا اس نے بہ تاکید سچ کہیں گے ہم
یہ تھی کہانی کی تمہید ‘ سچ کہیں گے ہم
مسئلہ مگر یہ ہے کہ صورتحال اکبر سرحد مرزا محمود سرحدی کے الفاظ میں کچھ یوں بنتی ہے کہ
جھوٹ کہتا ہوں اور بے کھٹکے
کون سچ کہہ کے دار پر لٹکے
کیا کہیں کیسے آسماں سے گرے
اور کیونکر کھجور میں اٹکے
یہاں مگر بات پورے اور آدھے سچ کے درمیان اٹکی نظر آتی ہے ‘ خود ہم بھی آئی ایم ایف کے حوالے سے اپنی تحریروں میں اسحاق ڈارکے اس”آدھے سچ” سے زیادہ یعنی آپ اسے پونا سچ قرار دے سکتے ہیں ‘ کہتے رہے ہیں اور جہاں اسحاق ڈار کے سچ بولتے بولتے ایک مقام پر آکر ”پرجلتے” دکھائی دے رہے ہیں ‘ کم از کم ہم نے اس صورتحال کی جانب زیادہ کھل کر اشارے کئے ہیں کیونکہ ڈار صاحب کی کچھ مصلحتیں ہوں ‘ کچھ مجبوریاں آڑے آرہی ہوں ‘ اور انہوں نے ہاتھ ہولا رکھنے پر اکتفا کیا ہو’ یا پھر وہ جوکسی دور میں(اکثر مارشل لائوں میں) اخبارات پر سنسر کی پابندیوں کی وجہ سے جو خبر”سرکاری درباری اداروں کے ایماء پر ”ہٹا دی جاتی تھی تو اس خالی جگہ کو پر کرنے کے لئے یہ الفاظ لکھ دیئے جاتے تھے کہ ”چربہ اڑ گیا”حالانکہ ان کے مقابلے میں ہماری مثال اس پشتو محاورے کی مانند ہے کہ ”گنجے پر سرتار لری آو نہ پہ چا کار لری”یعنی گنجے کے سر پرایک بال بھی نہیں اور وہ کسی سے کوئی غرض بھی نہیں رکھتا ‘ اس لئے بے فکر ہو کر آئی ایم ایف کے کردار پر بات کرتے کرتے ہم اس کی پشت پر کارفرما”اصل قوتوں” کے بارے میں رائے دینے میں زیادہ نہیں ہچکچاتے ‘ کیونکہ جس طرح حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی سخت سے سخت شرائط پوری کرنے کے باوجود یہ ادارہ کسی طور مان کر نہیں دے رہا اور نئی نئی شرائط عاید کرتا چلا جارہا ہے ‘ دراصل آئی ایم ایف کو اس بات کا شدید رنج ہے کہ اس کے مسلط کردہ گورنر سٹیٹ بینک کو کیوں فارغ کیاگیا ‘ کیونکہ سابق عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف کے مصر سے درآمد کردہ گورنر سٹیٹ بینک کو سٹیٹ بنک کی”کنجیاں” دیتے ہوئے پاکستان کی معیشت کو گروی کا جو سودا کیا تھا اس کے بعد موصوف (گورنر سٹیٹ بینک) نے وہی پالیسیاں پاکستان میں بھی نافذ کرنا شروع کر دی تھیں جن پرعمل کرتے ہوئے اس نے مصر کو معاشی طور پر”درگور” کردیا تھا’ یہ تو اللہ کاکرم ہوا کہ حالات نے ایسا پلٹ کھایا کہ ملک میں آئینی طور پر حکومت تبدیل ہوئی اور ابتداء میں (موجودہ) حکومت نے محولہ گورنر سٹیٹ بینک کی پالیسیوں کے لگنے والے زخم برداشت کئے مگر پھر صورتحال سنبھل گئی تاہم جوبارودی سرنگیں سابق حکومت نے ملکی معیشت اور اقتصادیات کے اندر بچھائی تھیں ‘جس کا نتیجہ بالآخر پاکستان کو ڈیفالٹ کرکے سری لنکا بنانا تھا ‘ اس حوالے سے ان تمام”قوتوں” کی خواہشات پوری نہ ہوسکیں جن قوتوں کی طرف سے اسحاق ڈار نے بھی بالآخر اشارہ کردیا ہے ‘ یعنی بقول شکیب جلال
ہرموڑ پرملیں گے کئی راہزن شکیب
چلئے چھپا کے غم بھی زرو مال کی طرح
جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے’ سابق حکومت کے”بہی خواہ” انگاروں پر لوٹ رہے ہیں ‘ ان میں خصوصاً وہ صیہونی طاقتیں اور ان کے پروردہ بعض طاقتیں خصوصی طور پر شامل ہیں جن کی سازشیں ملک پرایک ایسی حکومت مسلط کرنا تھی جس کی مدد سے ملک کو ڈیفالٹ کرکے سری لنکابنانا او رپھر مذاکرات کے ذریعے(جس کی طرف ڈار نے بھی اشارہ کر دیا ہے ) پاکستان کو اس کے ایٹمی اثاثوں سے محروم کرکے بے دست و پا کر دے او یوں جو خواہش ان قوتوں کے دلوں میں عرصے سے پرورش پا رہی ہے ‘ یعنی عالم اسلام میں کسی بھی ملک کو ایٹمی اثاثوں کے بل پر اتنی طاقتور نہ بننے دے کہ اسرائیل کے لئے کسی بھی وقت خطرہ بن سکے ‘ حالانکہ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے اور اگر اس نے ایٹمی قوت بننے کے لئے اتنی قربانیاں دی ہیں کہ اب محولہ عالمی سازشوں کے تحت وہ معاشی طور پر”دیوالیہ پن” کے خطرے سے دو چار ہے ‘ اور مہنگائی سے عوام کی حالت قابل دید ہو چکی ہے مگر یہ ساری صورتحال قبول کرنے کا کارن صرف اپنے ہمسائے بھارت کی چیرہ دستیوں سے خود کو بچانے کے سوا کچھ بھی نہیں ‘ مگر محولہ طاقتوں کے دل میں جو خوف جاگزیں ہے اس کا علاج تو شاید بقول شخصے وہم کاعلاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہے ‘ بہرحال یہ ”قوتیں” اپنے خوف کو دور کرنے کے لئے خود تو کھل کرسامنے نہیں آتیں مگر آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو بلیک میل کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بالآخر یہ جو اسحاق ڈار نے ”آدھا سچ” ہی سہی ‘ منہ سے نکال کرمحولہ ادارے کے مذموم کردار کوبے نقاب کر دیا ہے بقول ڈاکٹر نذیر تبسم
یہ تماشا بھی سردربار ہونا چاہئے
اب مری جانب سے بھی انکار ہونا چاہئے
آپ جیسے دوست سے محتاط رہنے کے لئے
آدمی تھوڑا سا دشمن دار ہونا چاہئے
پاکستان تو ان قوتوں کے نزدیک ویسے بھی”دشمن” سے کسی طور کم نہیں کیونکہ بات صرف ایٹمی اثاثوں ہی کی نہیں بلکہ سی پیک کے منصوبے کے احیاء کامسئلہ بھی ان قوتوں کے لئے حلق میں اٹکا ہواکانٹا ہے ‘جسے عمران حکومت کے دور میں بند کروانے میں کامیابی کے بعد پاکستان کے ہمسائے اور دیرینہ دوست چین کے ساتھ بھی اس کے تعلقات کو شدید خطرات سے دوچار کروا دیا تھا لیکن نواز شریف دور میں شروع کردہ اس منصوبے سی پیک کو دوبارہ فعال کرکے جس تیزی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں شہباز حکومت نے کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے اس سے بھی محولہ پاکستان دشمن قوتوں کی حالت دیدنی ہے اور انہوں نے آئی ایم ایف کو آگے کرکے پاکستان کو سبق سکھانے کی سازشوں کا جال بچھانا شروع کر دیا ہے ‘ اس مقصد کے لئے درپردہ سابقہ حکمرانوں کو ملک پر دوباہ مسلط کرنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں ان کی تفصیلات سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہتی ہیں تاکہ ایک بار پھراپنے پسندیدہ حکمران کی حکومت بحال کرکے پاکستان کو نہ صرف سری لنکا بنایا جائے اسے ایٹمی اثاثوں سے محروم کردیا جائے بلکہ خدانخواستہ اسے تین ٹکڑوں میں تقسیم کرکے قصہ ہی پاک کردیا جائے ۔ یہ الگ بات ہے کہ دشمن کے اپنے منصوبے ہوتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مصلحتیں اور وہ تمام سازشوں کوخاک میں ملانے پر قادر ہے۔
گر یہ ہی نہیں اک درودیوار کا دشمن
اس خانہ خرابی کے ہیں اسباب بہت سے

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے