دانش کا اخراج اور ملکی معاملات

کہا جاتا ہے کہ پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جس کی کروڑوں کی آبادی میں ساٹھ فیصد نوجوان ہیں ظاہر بات ہے کہ نوجوانوں میں کام کرنے، ملکی ترقی میں اپنا کردار کرنے اور اپنے مستقبل کو خوشحال بنانے کا جذبہ سب سے زیادہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ سارے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نہ ہوئے نوے فیصد نوجوانوں کو اپنے مضمون اور مہارت کے مطابق کام کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، ترقی یافتہ اور منصوبہ بندی کے مطابق چلنے والے ملکوں میں ملکی ضروریات اور مستقبل میں تعمیر و ترقی کے لئے جامعات اور تعلیمی اداروں کو باقاعدہ گوشوارے پیش کئے جاتے ہیں جس کے مطابق طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے اور وہ جونہی فارغ التحصیل ہوتے ہیں، ملکی ادارے ان کو صحیح جگہوں پر کھپانے کے لئے تیار و مستعد رہتے ہیں لیکن اپنے ہاں ہر ایک چیز میں بھیڑ چال کے علاوہ ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے سبب ان شعبوں میں طلبہ کا رش ہوتا ہے جس سے فارغ ہونے کے بعد جلد از جلد کوئی روزگار ملنے اور پیسے بنانے کے مواقع میسر ہو سکتے ہوں، یہی وجہ ہے کہ وطن عزیزمیں سب سے مرجح ( prior)شعبہ میڈیکل کا ہے، والدین اپنے ایک دو بیٹیوںکو ضرور ڈاکٹر بنوانے کے خواہشمند رہتے ہیں، امیر کبیر لوگوں کی اسی خواہش کی تکمیل کے پیش نظر تعلیم کے میدان میں نجی سرمایہ کاروں کو کھل کھیلنے کے مواقع ملے، اس سلسلے میں سکول کالج سے لے کر پرائیویٹ جامعات اور میڈیکل کالجوں میں سرمایہ کاری محفوظ ہونے کے علاوہ پیداواری صلاحیت کی بھی حامل ہوتی ہے ، نتیجتاً اس وقت وطن عزیز میں ملکی ضروریات سے زیادہ ”ڈاکٹروں ”کی دستیابی نے میڈیکل (طب) جیسے اہم اور مقدس شعبے کو بھی مجروح کرتے ہوئے سیچورٹیڈ بنا دیا ہے، کسی زمانے میں ایم بی بی ایس کی ڈگری کے حصول کے بعد نوجوان ڈاکٹروں کے لئے دیہات اور شہروں میں جاب (روزگار) کا حصول کوئی مسئلہ ہی نہ تھا مگر اب ایک سترہ گریڈ کی پوسٹ کے لئے بلا مبالغہ سینکڑوں’ ہزاروں ڈاکٹر درخواست دے کرقطار میں کھڑے ہوتے ہیں، پاکستان میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے ساتھ ساتھ چین’ سنٹرل اشیاء اور مشرقی یورپ کے بعض ممالک میں بھی پاکستانی طلبہ دھڑا دھڑ ڈاکٹر بن رہے ہیں، اب اتنے سارے لوگوں کا بیک وقت ڈاکٹر بننا یقیناً بے روزگار ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافے کا سبب بنا ہوا ہے اور اس صورتحال نے وطن عزیز میں طب کے شعبے میں ڈاکٹروں کا معیار پست کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ الگ سے ایک دردناک و المناک داستان ہے، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب طب کے شعبے کا یہ حال ہے تو تعلیم کے دیگر شعبوں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کے روزگار اور حصول ملازمت وغیرہ کا کیا حال ہوگا، ایک نوجوان کو جب ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی روزگار نہیں ملتا تو وہ نفسیاتی اور معاشرتی پیچیدگیوں کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے ایسے میں جو ذہین نوجوان ہوتے ہیں وہ بھی متاثر ہوکر رہ جاتے ہیں، اس قسم کی فرسٹریشین سے انسانی سمگلرز فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ ان بے روزگار نوجوانوں کو مغربی ممالک میں خوشنما مستقبل کے خواب دکھا کر اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں جس کے نتیجے میں المناک المیے جنم لیتے ہیں، پچھلے دنوں یونان کے ساحل کے قریب کشتی کا جو حادثہ پیش آیا اس کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق تین سو پچاس نوجوان اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں کو نا قابل برداشت صدمات سے دوچار کرتے ہوئے سمندر کی تہہ میں ہمیشہ کے لئے سو گئے، یہ نہ پہلا حادثہ ہے اور نہ آخری، یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ہمارے ملک کا نظام درست نہ ہوگا، ملک کا نظام ‘ سماجی عدل و انصاف سے درست ہوتا ہے، عدل اجتماعی کے بغیر کسی ملک و معاشرے کا ترقی کرنا ناممکنات میں سے ہے، آج کے اس عہد میں عدل اجتماعی کے قیام کے لئے جمہوری طرز حکمرانی کو مضبوط بنیادوں پر رواں رکھنا لازم ہے، جمہوری نظام کے ذریعے ادارے مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں، ملک میں میرٹ کو اولیت ملتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازی ہوتی ہے جس کی رو سے میرٹ کی صریح خلاف ورزی کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، یوں ہر شعبے میں ہر پوسٹ پر میرٹ کے مطابق مناسب افراد کی تعیناتی ہوتی ہے اور اپنی بھرپور صلاحیتوں کے ذریعے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور اداروں کی مضبوطی و استحکام کا سبب بنتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز پیرانہ سالی کی عمر میں پہنچ گیا ہے لیکن عوام نے اس کی بھرپور جوانی کا عہد کبھی ملاحظہ نہیں کیا، گزشتہ 75 برس میں ہم یہ طے نہیں کر سکے کہ ہمارا سٹیٹ مشن کیا ہے اور اس کے حصول کے لئے کیا انتظامات کئے گئے۔ وطن عزیز کے سیاسی نظام پر تو بات کرنا ہی مشکل ہے، یہاں تو اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ طاقت کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اور نظام حکومت کیا ہے، یہ بھی کوئی نظام ہے اور دنیا کے کسی اور ملک میں بھی کہیں ایسا ہو سکتا ہے جیسا کے وطن عزیز میں ہے۔ نہ مارشل لاء ہے’ نہ جمہوریت اور نہ ہی کوئی خاص نظام جسے کوئی نام دیا جا سکے۔ اگر چہ اس وقت اپوزیشن وغیرہ موجودہ نظام کو آمریت ، فسطائیت وغیرہ سے موسوم کرتی ہے لیکن مقتدر طبقات پارلیمان کی موجودگی کے سبب اسے جمہوریت قرار دینے پر مصر ہے۔ ایسی گوں مگوں صورتحال میں کسی بھی ملک کے بنیادی اداروںکو سخت نقصان پہنچتا ہے، اس کے نتیجے میں غیریقینی صورت حال چھا جاتی ہے اور ذہین نوجوانوں کا طبقہ مایوسی کا شکار ہو کر اپنے ہی ملک سے نکلنے کی جائز و ناجائز راہیں ڈھونڈنے میں مصروف ہو جاتا ہے، ایک اندازے کے مطابق موجودہ بے مثال اتحادی اور ”جمہوری” حکومت کے ایک سال کے عرصہ دوران دس لاکھ نوجوان وطن عزیز سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرف پرواز کر چکے ہیں، اس ہجرت کے دو ہی سبب ہیں، ایک نظام حکومت، دوسرا میرٹ کا فقدان’ آج وطن عزیز کے نوے فیصد وسائل دس فیصد بڑوں کے ہاتھ میں ہیں، ظاہر ہے کہ دس فیصد وسائل نوے فیصد عوام کی کفایت نہیں کرتے، ذہین نوجوان جب کسی بھی ملک سے نکلنے پرمجبور ہوتے ہیں تو پیچھے معاملات ملکی چلانے کے لئے ایرے غیر ہی رہ جاتے ہیں جس کے سبب ملک میں ترقی کی شرح منفی ہی رہ جاتی ہے اور جس ملک میں ترقی کی شرح کا یہ حال ہو وہاں سودی قرضوں پر وقت گزارا جاتا ہے لیکن اگر وہ بھی ملنے سے رہ جاتے ہیں تو ملک کے حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جسے ہمارے ہیں، عوام زندگی کی بنیادی ضروریات بجلی’ گیس اور پانی کیلئے ترستے ہیں، تعلیم اور صحت کی سہولیات تو عیاشی میں شمار ہوتی ہیں، ایسے میںدعا ہی کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہو۔

مزید پڑھیں:  ''روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت''؟