مشرقیات

ایک خاتون تھیں مسلمان! مدینے میں رہتی تھیں دن وہ تھے جب اللہ کے آخری نبی معلم کتاب و حکمت صلی اللہ علیہ وسلم علم و عمل کی دنیا بنانے اور سنوارنے کے لئے اس دنیا میں موجود تھے، ایک دن آپۖ کی خدمت میں صحابہ کرام بیٹھے تھے کہ اس خاتون کا ذکر آیا۔ کہنے والوں نے کہا ۔ یا رسول اللہ وہ نماز پڑھتی ہیں، روزے رکھتی ہیں، صدقہ و خیرات کرتی ہیں، راتوں کو جاگتی اور اللہ اللہ کرتی ہیں لیکن بس ایک بات ذرا نا مناسب سی ان میں ہے۔
حضورۖ نے صحابہ کرام سے پوچھا۔ وہ کیا نا مناسب بات ہے ؟ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! وہ زبان کی سخت اور بڑی تند مزاج ہیں،، کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتیں۔ ذرا کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف ہو تو بگڑ بیٹھتی ہیں اور جب بگڑتی ہیں تو کچھ نہ پوچھئے۔ لوگ خاص طور پر ان کے پڑوسی ان سے بہت تنگ ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو اس کی عبادتیں بیکار گئیں!
عبادتوں کا مقصد کیا ہے ؟ مقصد ہے نفس پر قابو پانا یعنی مزاج کو شریف بنانا ان باتوں سے بچنا جن سے بچنے کے لئے اللہ اور رسولۖ نے حکم دیا ہے۔ زبان کے شرسے بچنے کے بارے میں ہمیں تاکیدی احکام ہیں، سورہ بقرہ میں ارشاد ربانی ہے (ترجمہ) جب کسی سے بات کرو تو نرمی سے بات کرو! لہجے میں ترشی اور تندی ہر گز نہ آنے دو۔
حضرت عمر فرماتے ہیں ایک دن میں مسجد نبویۖ پہنچا دیکھا حضرت ابوبکر صدیق مسجد نبویۖ میں موجود ہیں۔ وہ ایک بہت بڑی مملکت کے حکمران تھے، اتنی بڑی مملکت کے حکمران کہ سمجھ لیجئے براعظم یورپ کے آدھے رقبے کے برابر ان کی مملکت کی وسعت تھی مگر حال وہی تھا جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، یعنی بادشاہی میں فقیری کا چلن رکھتے تھے حضرت عمر نے دیکھا کہ صدیق اکبر مسجد نبویۖ میں بیٹھے ہیں اور اپنی زبان اپنے ہاتھ سے مروڑ رہے ہیں! یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر بن خطاب کو بڑی حیرت ہوئی، انہوں نے بڑے اچھنبے سے پوچھا اے امیرالمومنین خیرہے، یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ جواب ملا ابو حفص! یہ گوشت کا لوتھڑا جسے ہم زبان کہتے ہیں بڑی خطر ناک چیز ہے، اسی لئے اس ظالم کو مروڑ رہا ہوں آدمی کو چاہئے کہ اسے قابو میں رکھے!
دنیا میں ہزاروں کام زبان سے بنتے ہیں اور زبان ہی سے بگڑتے ہیں، زبان میٹھی ہو تو آدمی فاتح بن جاتا ہے، وہ دلوں کو جیت لیتا ہے، کہا جاتا ہے کہ دلوں کو جیت لینا حج اکبر کے برابر ثواب کا کام ہے! یہ بگڑ جائے تو غیر تو غیر اپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، نفرتوں کی خلیج ایسی حائل ہوتی ہے کہ سب اس سے دور بھاگتے ہیں جس کی زبان اس کے قابو میں نہ ہو۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشادکا مفہوم ہے کہ وہ بدترین آدمی ہے جس کی بدزبانی اور ترش روئی کی وجہ سے لوگ اس کا ساتھ چھوڑ جائیں! ۔ اللہ نے جنہیں اونچا مقام دیا ہے انہیں خاص طور پر حکم ہے کہ اپنی زبان کا خیال رکھیں۔

مزید پڑھیں:  بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا المیہ