آئی ایم ایف سے قرض کاحصول؟

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے گزشتہ کچھ عرصے سے آئی ایم ایف کے سخت رویئے کے باوجود یہ دعوے کس حد تک درست ہیں کہ ملک کے ڈیفالٹ کاکوئی خطرہ نہیں اور ان کے دعوے کسی حد تک درست بھی ہیں کیونکہ حکومت نے ادائیگیوں کے معاملے کو کامیابی سے نمٹا لیا ہے جبکہ وزیر خزانہ نے ملک کی معیشت چلانے کے متبادل منصوبوں کے حوالے سے بھی آگے بڑھنے کے دعوے کرتے ہوئے دوست ممالک سے مستقبل قریب میں بڑی سرمایہ کاری آنے کی امید کا اظہار بھی کیا ہے اسی طرح وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے بھی ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پلان بی کے تحت ملک میں 112 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی نشاندہی کی ہے اور کہا ہے اس کے پیچھے بے شمار ممالک بالخصوص سعودی عرب’ یو اے ای’ قطر اور چین کی کمٹمنٹ ہے’ اس سلسلے میں معاشی بحالی کے قومی پلان کے تحت گزشتہ روز وزیراعظم کی سربراہی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی تھی کئے جانے والے فیصلوں کی بھی بہت اہمیت ہے جبکہ حال ہی میں آرمی چیف نے چین کے دورے کے دوران جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ بھی ملکی معیشت پر مثبت اثرات ڈالنے میں اہم کردار ادا کریں گی تاہم جہاں تک آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کیلئے پاکستان کی امریکہ سے مدد طلب کرنے کی خبروں سے ملکی معیشت میں اس ادارے کے اہم کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا’ آئی ایم ایف نے عمران حکومت کے اقتدار سے آئینی طور پر محروم ہونے کے بعد اور اپنے آخری دنوں میں عمران خان نے جس طرح آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو سبوتاژ کرکے آئی ایم ایف کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی تب سے وہ سخت سے سخت شرائط عائد کرنے اور حکومت کے ان پر خلوص نیت کے ساتھ عمل درآمد کے باوجود وہ کسی طور مان کر نہیں دے رہا بلکہ ہر بار نئی اور پہلے سے بھی سخت شرائط عائد کرکے معاہدے سے دور بھاگنے کی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے، ادارے کے اس رویئے کے پیچھے اصل حقائق اگرچہ واقفان حال اچھی طرح جانتے ہیں کہ ادارہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیوں نہیں کر رہا ہے؟ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بقول اسحاق ڈار متبادل انتظامات کرنے سے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا گیا ہے تاہم ملکی معیشت کو آگے بڑھانے کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی اپنی اہمیت ہے اور بہت سے دوست ممالک اگرچہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ تیار ہیں’ لیکن انہیں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاہدے کا”لائسنس” درکار ہے یعنی اگر آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کا معاہدہ طے پاتا ہے تو نہ صرف اس معاہدے سے دیگر ممالک کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو جائے گا بلکہ جو قدغنیں موجودہ صورتحال میں پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کے حوالے سے عائد دکھائی دیتی ہیں وہ بھی از خود ختم ہوجائیں گی، اس لئے اب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کے دوران انہیں عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ جاری مذاکرات سے آگاہ کیا اور آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام مکمل کرنے کے لئے اپنی حکومت کے عزم سے آگاہ کیا اور آئی ایم ایف سے قرض کی قسط دلوانے کے لئے امریکی حکومت کو کردار اداکرنے کی اپیل کی ‘ وزیر خزانہ نے امریکی سفیر کو قومی اور عالمی مالیاتی ذمہ داریاں پوری کرنے کے سلسلے میں مالیاتی فرق کو کم کرنے کے لئے اپنی حکومت کی جانب سے بجٹ میں کئے گئے اقدامات کے بارے میں بھی آگاہ کیا جبکہ امریکی سفیر کے ساتھ ملاقات میں چیلنجنگ معاشی صورتحال سے نمٹنے ‘ معیشت کو استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے حکومت کی اقتصادی پالیسیاں اور ترجیحات بھی شیئر کیں، امریکی سفیر نے معاشی استحکام اور عوام کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے پاکستانی حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں پر اعتماد کا اظہار کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ معاشی سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینے کیلئے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ ادھر ایک اور خبر کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدے کے حوالے سے برطانیہ نے بھی اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے’ برطانوی وزیرمملکت برائے خارجہ و کامن ویلتھ ڈویلپمنٹ آفس اینڈریومچل نے معاشی اصلاحات پرعملدرآمد کے لئے آئی ایم ایف اور دیگر فورمز پر پاکستان کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرا دی ہے’ برطانوی وزیر مملکت سے بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ورچول ملاقات کی تھی، یاد رہے کہ امریکی سفیر کے ساتھ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے 2019ء کے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پاکستان کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کرنے کیلئے 9ویں جائزے کی مدت 30 جون کو ختم ہو رہی ہے جس میں سات روز رہ گئے ہیں، بہرحال اب آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتا ہے اس کا فیصلہ جلد ہی ہو جائے گا جبکہ امید کی جانی چاہئے کہ عالمی ادارہ اپنے رویہ میں نرمی لاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے پر تیار ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں:  بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا المیہ