سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوائری تو ہونی چاہیے، چیف جسٹس

اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بنچ میں شامل ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے حکومت پنجاب کی جانب سے 9 مئی کے واقعات میں ملوث زیر حراست ملزمان کا ڈیٹا سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا، واقعات میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا، گرفتار خواتین میں سے 42 کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے، جبکہ 39 خواتین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر قید ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت 1888 افراد گرفتار کئے گئے، 108 ملزمان جسمانی اور 1247 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں جبکہ 232 افراد ضمانت پر رہا ہوئے۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں ہیں، فوجی عدالتوں میں فوجداری ضابطے کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی، اس کو چیلنج نہیں کیا نہ ہی کسی ملزم کی بریت کو چیلنج کیا، آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا مدعا ملزمان کے ساتھ الگ الگ سلوک، اور فیئر ٹرائل کا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کے استفسار کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ جو آپ کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں، 9 مئی کے واقعات کے مقدمات میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ دلائل جاری رکھیں وکلا کے بعد اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہو سکتا ہے اٹارنی جنرل کل مانگی گئی تفصیلات پر آج بیان دے دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپنے دلائل متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کیلئے مختص ہے۔ سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوائری یا تحقیقات تو ہونی چاہیے، کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسداد دہشت گردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے، فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست نہیں کی گئی۔ سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوائری یا تحقیقات تو ہونی چاہیے، کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسداد دہشت گردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے، فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کن سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ملٹری افراد کے علاوہ سویلینز کے حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 199 تھری کے تحت ہائی کورٹ کے فوجی عدالتوں کے خلاف اختیارات محدود ہیں، ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کے تحت تھا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں کوئی شخص گرفتار نہیں ہے، پشاور میں چار لوگ زیر حراست ہیں۔
منصور اعوان نے کہا کہ پنجاب میں ایم پی او کے تحت 21 افراد گرفتار ہیں، انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 141 افراد گرفتار ہیں، سندھ میں 172 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 345 افراد گرفتار ہوئے اور 70 رہا ہوئے، ایم پی او کے تحت 117 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ فوج کی تحویل میں کوئی خاتون اور کم عمر نہیں ہیں، کوئی صحافی اور وکیل فوج کی تحویل میں نہیں ہیں،
اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران ہی چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت پیر کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔

مزید پڑھیں:  اے ایس پی شہر بانو شادی کے بندھن میں بندھ گئیں