آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ

چند روز قبل یونان کے سمندر میں جس کشتی کو المناک حادثہ پیش آیا ، اس میں سوار پاکستانی ایک بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر اپنا مُلک چھوڑ کر لیبیا سے اٹلی جا رہے تھے ۔ یہ پہلا حادثہ نہیں بلکہ اسی سمندر میں اٹلی جانے والی کئی کشتیاں اپنے پاکستانی سواروں سمیت غرق ہو چکی ہیں ۔ اس حادثہ پر حکومت کی جانب سے حسب معمول سوگ منانے اور تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یقینا سب کو دکھ بھی ہے اور تحقیق بھی ضروری ہے کہ حادثہ کیسے پیش آیا ، تارکین وطن کے اس غیر قانونی سفر میں کون ملوث ہیں تاکہ ذمہ داروں کو سزا دی جا سکے ۔
ماضی میں بھی انہی حادثات کی چھان بین ہوئی ، کہیں وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ ٹھپ ہو جاتا تو کہیں کچھ لوگ پکڑے جاتے اور کسی کو سزا بھی ملتی مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے مُلک میں دیگر جرائم کی طرح یہ دھندہ بلا روک ٹوک جاری ہے ۔ پہلے کی طرح اب بھی بہت سے نوجوان یورپی ممالک میں پرکشش روزگار کے جھانسے میں آکر انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ گئے ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ نوجوان بھی اپنے گھر کے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر باہر نکلے ، ایک اچھی اور پرسکون زندگی کے خواب لیئے ، اپنے والدین اور بہنوں بھائیوں کا سہارا بننے ۔ جس کی خاطر نہ جانے کتنی مشکل میں لاکھوں روپے جمع کیے ہوں گے کہ آخر ان موت کے سوداگروں کو تھما دئیے ۔ اس حادثہ کا شکار ہونے والوں کے بوڑھے والدین اور لواحقین کی دلخراش کہانیاں سن کر بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ لوگ بے روزگاری اور معاشی تنگی کے ہاتھوں کس قدر مجبور ہیں ۔
اس سانحہ کے بعد پولیس اور تحقیقاتی ادارے حرکت میں آئے ، مقامی سطح پرمقدمے درج کیے اور کئی افراد کو حراست میں بھی لیا ۔ عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ سب کچھ لٹا کر اب ہوش میں آنے کی کیا ضرورت ہے ۔ ان محکموں میں افسران اور خاصی تعداد میں دیگر ملازمین کی فوج موجود ہے ، سرکاری مراعات انہیں حاصل ہیں اور شعبے سے متعلقہ تحقیق و تفتیش کی جدید سہولتیں بھی مہیا کر دی گئیں ہیں تو پھر ان تما م آسانیوں اور ختیارات کے ہوتے ہوئے انسانی سمگلنگ کے یہ کھلے عام دھندے یقینا نااہلی اور غفلت کوظاہر کرتے ہیں۔ کیا انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ مقامی سمگلر کون ہیں ، کہاں رہتے ہیں اور ان کے تانے بانے بیرون ممالک بیٹھے کن لوگوں سے جا ملتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ کاروبار وہ اپنے طور پہ نہیں کر سکتے جب تک انہیں یہاں کسی کی سر پرستی حاصل نہ ہو اور غیر مُلکی ایجنٹ ان کا ساتھ نہ دیں ۔ ان محکموں کے حکام جانتے ہیں کہ مُلک میں اقتصادی بحران ہے اور غیر یقینی معاشی مستقبل کے خوف سے لوگ مُلک چھوڑ کر جا رہے ہیں اورخفیہ رپورٹوں سے انہیں ایسے لوگوں کا علم بھی ہو جاتا ہے جو قانونی دستاویزات کے بغیر ان مجبور نوجوانوں کو مُلک سے باہرروانہ کرنے میں ملوث ہیں ۔ اسی لیے پھر ان محکموں کی کارکردگی پہ سوال اُٹھتے ہیں کہ ایسے ہولناک حادثات رونما ہونے سے پہلے ان سمگلروں کے گینگ پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جا سکتا ۔ روزی روٹی کے لیے مُلک سے ہجرت کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے، ہر مُلک سے لوگ مزدوری کرنے اور پیسہ کمانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں قائدہ قانون پر چلنے کی بجائے ایک اکثریت اس سے رو گردانی کر نے پہ مجبور ہے کہ اسی میں انہیں آسانی میسر ہے ۔ اب تو گزشتہ کئی برسوں سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، اِدھر یہ انسانی سمگلر غیر قانونی طریقہ سے بیرون مُلک جانے کی نئی نئی راہیں نکال لاتے ہیں اور اُدھر یہ خط غربت سے نیچے گرنے والے اپنا سب ترکہ بیچ کر انہی ستمگروں کے ذریعے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ جو مہاجرین اور دنیا بھر میں ہجرت کے معاملات نمٹانے پر مامور ہے ، یہ رپورٹ دی ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آنے والے لیبیا اور تیونس سے بحیرہ روم کا یہی خطر ناک راستہ اختیار کرتے ہیں اور اب تک اس سفر میں ہزاروں تارکین وطن ہلاک ہو چکے ہیں ۔ اس سمندر میں غیر معیاری کشتیاں چلانے والے جرائم پیشہ انسانی سمگلر ہوتے ہیں ۔ ایک حیرت انگیز صورتحال ہے کہ ایک طرف ہلاک ہونے والوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف سفر کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے کہ ایک کشتی میں گنجائش سے زیادہ مسافر ہوتے ہیں ۔ اس حالیہ حادثے کی شکار کشتی میں سوار بد قسمت پاکستانیوںمیں گجرات اور گوجرانوالہ کے رہنے والوں کی تعداد زیادہ تھی ۔حیرت ہے کہ ان صنعتی شہروں سے لوگ کیوں ہجرت کر رہے ہیں جبکہ یہاں روزگار کے مواقع پاکستان کے دوسرے شہروں سے کہیں زیادہ ہیں ۔ پختونخواہ اور سرائیکی علاقوں سے لوگ انہی شہروں کا رخ کرتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ کراچی میں محنت مزدوری کر رہے ہیں ۔ پہلے بھی انہی شہروں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اسی سمندر میں حادثات پیش آئے ۔ ١٩٧٧ میں جب سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو جرمنی میں سیاسی پناہ کی آڑ میں بہت سے لوگوں نے ہجرت کی ، اس وقت یہ بات زبانِ زد عام تھی کہ مغربی جرمنی کی دریافت کا اصل سہرا گجرات کے سر جاتا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ آج کل معاشی حالات نے سب کو پریشان کر رکھا ہے ، جب کھاتے پیتے لوگ متاثر دکھائی دیتے ہیں تو ایسے میں غریب لوگوں کی معاشی مشکلات اور مجبوریوں کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔ ایک دوست نے کل خوب کہا کہ اگر اس واقعہ کے حوالہ سے چند سمگلر پکڑے جائیں یا سزا دی جائے تب بھی مستقبل میں ایسے حادثے رونما ہوتے رہیں گے کیونکہ اصل مسلہ مُلک میں معیشت کی بہتری اور روزگار کی فراہمی ہے ، امن و امان کی بجائے ہمیں ایک فلاحی مملکت بنانے کو ترجیح دینی ہو گی ۔ یہ کیسی مملکت ہے کہ پیسہ نہ ہو تو لوگ بیماری کا علاج نہیں کر سکتے ، بچوں کو پڑھا نہیں سکتے اور یہاں تک کہ جینا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ٹیلی ویژن کی سکرین پر رونے والے لواحقین کو دیکھ کر یہی خیال آیا کہ ان کے بچے گھر پہ بوجھ ہر گز نہ تھے ، اپنوں کی بے بسی دیکھ کر گھر سے نکلے تو کشتی پہ بوجھ بن گئے جنہیں یوں ڈوبتے ہوئے وہ دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے ۔

مزید پڑھیں:  سمت درست کرنے کا وقت