دورہ امریکہ میں مودی کی پاکستان پر چاند ماری

امریکہ کے دورہ پر موجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اس وقت سبکی سے دوچار ہونا پڑا جب امریکی صدر جوبائیڈن کے ہمراہ پریس بریفنگ کے دوران غیرمتوقع طور پرصحافیوں نے بھارت میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مسلمانوں و دلتوں کی نسل کشی بارے ان سے سوالات کئے۔ پریس بریفنگ کے دوران امریکی انتظامیہ کا یہ اہتمام دھرے کا دھرا ہی رہ گیا کہ چند منتخب صحافیوں کے علاوہ مہمان سے کوئی اور صحافی سوال نہیں پوچھے گا۔ بھارتی وزیراعظم نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوالات کا جواب نہیں دے پائے بلکہ پریس بریفنگ کے دوران میزبان امریکی صدر نے انتہائی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے نریندر مودی کے پروپیگنڈے کو زبان دی۔ مودی کے بھونڈے الزامات کی تائید میں سر ہلاتے امریکی صدر کو غالبا بوڑھاپے کے باعث یہ یاد نہیں رہا کہ نریندر مودی کو گجرات کا قصائی امریکی ذرائع ابلاغ نے ہی قرار دیا تھا۔ ریاستی وزارت اعلی کے مودی دور میں گجرات میں ہونے والی مسلم نسل کشی کی بدولت ہی امریکہ نے نریندر مودی کے بھارت میں داخلہ پر پابندی عائد کئے رکھی جو ان کے وزیراعظم بننے کے بعد ختم ہوئی۔ پاکستان کی حکومت اور عوام کو امریکہ بھارت تعلقات اور دونوں کے مختلف شعبوں میں پرجوش تعاون سے کوئی پریشانی ہے نہ اس میں حیران ہونے والی بات ، کرہ ارض کی ریاستیں باہمی مفادات پر تعلقات استوار کرتی اور آگے بڑھاتی ہیں۔ مساویانہ بنیادوں پر استوار ہونے والے ان تعلقات سے یقینا دونوں طرف کے عوام کو فائدہ ہوتا ہے البتہ نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران میزبان ریاست نے پاکستان کے خلاف ان کے زہریلے الزامات اور پروپیگنڈے میں جس ہمنوائی کا تاثر دیا اس پر افسوس ہی کیا جانا چاہیے۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ جس بھارتی وزیراعظم کا دامن بھارتی مسلمانوں، دلتوں اور دوسری اقلیتوں کے لہو سے داغدار ہے جس نے اقوام متحدہ کی متفقہ قرارادوں کی موجودگی میں اپنے زیرقبضہ جموں و کشمیر کے حصے کو عالمی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مملکت کا باضابطہ حصہ بنالیا اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے مسلسل اوچھے ہتھکنڈے آزمارہا ہے۔ امریکی انتظامیہ اور بالخصوص صدر جوبائیڈن نے اس دریدہ دہن شخص کی ہمنوائی کی۔ کیا امریکی صدر اپنے ہی ملک کی کانگریس کی ایک سب کمیٹی کی اس رپورٹ سے لاعلم تھے جس میں بھارت میں اقلیتوں کی نسل کشی کے عمل میں مودی سرکار کی معاونت کی نشاندہی کی گئی اسی رپورٹ میں مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بھارت کو بدترین ملک قرار دیا گیا فقط یہی نہیں گزشتہ امریکی حکومت (ٹرمپ انتظامیہ) کے دور میں امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی میں مفصل چھان بین کے بعد بھارتی تنظیموں، بعض مالیاتی اداروں اور حکومتی شخصیات کے داعش کے خراسان چیپٹر سے مراسم و اعانت کا جو پول کھولا اس کا ٹرمپ انتظامیہ نے کوئی نوٹس لیا نہ جوبائیڈن انتظامیہ نے دنیا میں جمہوریت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کی خودساختہ محافظ بنی سپریم طاقت کے اس دوہرے معیار کو کیا نام دیا جائے؟ یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ بھارت کے حوالے سے امریکی کانگریس کی مختلف کمیٹیوں کی رپورٹ اور انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ مذہبی آزادیوں کی جانچ کرنے والی امریکی کمیٹی کے دوٹوک موقف کے باوجود مودی سرکار کے لئے امریکہ کی پرجوش حمایت اصل میں خطے بلکہ جنوبی ایشیا میں امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے کیونکہ اگر معاملہ سیدھا سادہ ہوتا تو امریکیوں کا رویہ یکسر مختلف ہوتا لیکن بدلتے ہوئے حالات اور عالمی سیاست کے ایک نئے پرجوش و پرعزم اور بااثر گروپ روس و چین کے مقابلہ میں امریکی سرد جنگ جیسا ماحول پیدا کرکے بھارت کی سرپرستی اس امید پر کرہے ہیں کہ بھارت اس نئے عالمی اتحاد کا جنوبی ایشیا میں راستہ روکے گا۔ امریکی خواہشات و ترجیحات اپنی جگہ یہ امر بہرطور قابل غور ہے کہ نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران میزبان ریاست نے اپنے مہمان کو سفارتی ادب آداب ملحوظ خاطر رکھنے کا مشورہ دینے کی بجائے اسے پاکستان پر بھونڈی الزام تراشی کا نہ صرف موقع دیا بلکہ یہ تاثر بھی امریکہ ان گھٹیا قسم کے الزامات کو درست سمجھنا ہے۔ یہ امر پاکستانی عوام کے لئے یقینا تکلیف کا باعث ہے۔ حکومت اور پالیسی سازوں کی مجبوریاں ہوں گی کہ فوری ردعمل سے گریز کیا گیا۔ اہل پاکستان کو یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ انسانی حقوق، قومی آزادی اور مذہبی رواداری کے حوالے سے امریکہ اور بھارت دونوں کو اپنے کردار کا عمومی جائزہ لے لینا چاہیے۔ ہماری دانست میں دفتر خارجہ کو کسی تاخیر کے بغیر نریندر مودی کے گمراہ کن الزامات کے ساتھ بھارت کی داخلی سیاست کے تضادات اقلیتوں کی نسل کشی کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے ہتھکنڈوں اور بھارت کے نصاب تعلیم سے غیرہندو برادریوں خصوصا مسلمانوں کا ذکر نکالنے کے عمل پر پاکستان کا موقف دوٹوک اندازمیں واضح کرنا چاہیے۔ دفتر خارجہ نے اگر نریندر مودی کو آئینہ دکھانے میں تاخیر کی تو پروپیگنڈے کے محاذ پر پاکستان پر سبقت رکھنے والا بھارت امریکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک بار پھر پاکستان کے بارے میں منفی جذبات ابھارنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھے گا۔ نہ صرف یہ کہ بھارتی پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے بلکہ کسی تامل کے بغیر امریکی حکام پر بھی یہ واضح کرنا ہوگا کہ صدر جوبائیڈن کی موجودگی میں بھارتی وزیراعظم کے پاکستان کے خلاف الزامات پر جوبائیڈن کا رضامندانہ تاثر پاکستان کے لئے تکلیف کا باعث بنا ہے۔ جہاں تک مودی کے الزامات کا تعلق ہے تو یہ بھارت کی مکارانہ پالیسی کا حصہ ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ اپنی داخلی سیاست کی سیاہ کاریوں اور اقلیتوں کی نسل کشی کے ساتھ اپنے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں جنگی جرائم کی پردہ پوشی کے لئے پاکستان کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ اپنے دورہ امریکہ کے دوران نریندر مودی نے یہی وطیرہ اپنائے رکھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ نہ صرف نریندر مودی کے من گھڑت الزامات کی حقیقت دنیا کے سامنے واضح کرے بلکہ بی جے پی کے پچھلے دور اور حالیہ عرصے میں انسانیت دشمن پالیسیوں کا پردہ بھی چاک کرے تاکہ دنیا عظیم جمہوریہ کہلانے کی شوقین ریاست کا حققی چہرہ اور کردار دیکھ پائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دفتر خارجہ نہ صرف اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں پہلو تہی نہیں برتے گا بلکہ کسی تاخیر کے بغیر بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد مقبوضہ علاقے میں جاری ظلم و ستم سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کرے گا تاکہ عالمی برادری جان سکے کہ بھارت کی داخلی سیاست اور سماجیات میں دیگر مذہبی برادریوں کی نسل کشی کے سرپرست کا کردار ادا کرنے والے بھارتی وزیراعظم کس طرح دنیا کی حقائق سے توجہ ہٹانے کے لئے دروغ گوئی کے ریکارڈ بناتے رہتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن