اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

نرگسیت ‘ ضد اور انا پسندی وانا پرستی پارلیمانی الفاظ نہیںلیکن ملکی سیاست میں جس کثرت سے ان کا استعمال ہو رہا ہے وہ بھی ٹاک شوز کی چیخ و پکار پرمبنی بے ربط سی گفتگو کی طرح اب مروج ہوچکا ہے ملکی سیاسی جماعتوں سے لے کر سیاست کے میدان اور پارلیمان تک جس نرگسیت ضد اور انا پرستی کے مظاہر دیکھنے کو مل ر ہے ہیں غور کریں تو یہ ہر کسی میں نظر آئیں گی مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں اس قسم کو سیاست نہیں بلکہ ذاتیات کہلانے کی ضرورت ہے اس طرز عمل سے کوئی بھی محفوظ نہیں صرف عمران خان ہی نہیں مریم نواز بھی کسی سے پیچھے نہیں آصف زرداری کا بھی خیال ہے کہ سیاست پر جو گرفت ان کی ہے کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی۔ عمران خان تو خود کو واحد سیاسی طاقتور شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں تو نواز شریف بھی لندن بیٹھ کر کسی سے کم نہیں نوجوان بلاول قدرے بہتر اس لئے شاید نظر آتے ہیں کہ ان کی ماں کی تربیت پوری طرح لاحاصل نہیں ہوسکتی کسی داڑھی ‘ پگڑی والے کی تو میں بات ہی نہیں کرتی اس لئے نہیں کرتی کہ دعویٰ کس بات کا اور کرتوت کس طور کی ایسے کو نظر انداز کرنا ہی بنتا ہے بہرحال یہاں بھی مرعوب کرنے اور ایسے دعوئوں کی کمی نہیں کہ وہ زمین اور فضا تک کو گرم کرنے کی دھمکی دیتے ہیں گویا خدائی فوجدار ہوں یہ رویہ اور انداز یہ اطوار کیا ہیں نرگسیت اور ہوتی کیا ہے ضد اور انا پرستی و خود پسندی اسی کو تو کہتے ہیں بقول شاعر
مٹی کے مورتوں کا ہے میلہ لگا ہوا
آنکھیں تلاش کرتی ہیں انسان کبھی کبھی
ملکی سیاست میں دیکھیں تو ایسے ایسے مظاہر سامنے آئیں گے کہ کبھی اس انتہا پر اور کبھی اس انتہا پر جیسے
خود پرستی میں رہتی ہوں تو مٹی سے بھی کھیلیں
انا پرستی میں آجائوں تو چاند کو بھی نظر انداز کردوں
کاش کہ کوئی ایسی سوچ بھی کہیں پیدا ہو کہ خود پرستی خدا نہ بن جائے احتیاطاً گناہ کرتا ہوں۔ یہ تو بس ایک سوچ کی بات تھی جس میں احتیاطاًاپنی سوچ کی انتہا اور غرور کو توڑنے کی تخیل میں بات کی گئی ہے ورنہ انسان بڑا ہی گنہگار اور تسلسل سے گناہ و خطا کرنے والی مخلوق ہے مگر مغرور بھی اتنا کہ دو چار رکعت نماز کیا پڑھ لی خود کو برگزیدہ او رکامل سمجھنے لگتا ہے ۔ نیکی میں بھی احتیاط کی ضرورت اس لئے کرنی چاہئے کہ نیکی کاغرور کہیں گمراہ نہ کر بیٹھے مگر یہ جو صبح و شام بلا سوچے سمجھے مخالفین پر تبرا کرنے کا رواج ہے کاش وہ بھی کسی دن سوچیں کہ گوشت پوست کا انسان ہو کر دوسرے کو اتنا برابھلا کہہ کر اپنی عاقبت کیوں خراب کی جائے یہ سوچ لیا جائے تودکھاوے کے لئے نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں انسان کی ذات اور شخصیت پر خاکساری غالب آجائے ۔ اپنے آپ کو ہر وقت اور ہر قدم راست اور دوسروں کے بارے میں دیگر خیالات ہر کسی کے ہوتے ہیں اس کیفیت سے میں آپ اور کوئی بھی خالی نہیں یہی وجہ ہے کہ ہر فرد دوسروں کے احتسابی عمل کے لئے ہر لمحہ تیار رہتا ہے لیکن احتساب اگر اپنا ہو تو تجزیاتی پیمانہ ہمیشہ خرابی کی تصویر دکھائی دیتی ہے قصور اس پیمانے کا نہیں اس سوچ کا ہے جو خود کو کبھی غلط دکھنے پرآمادہ ہی نہیں ہونے دیتی اور جب کوئی فرد خود پرستی کے آسیب میں گھر جائے تو اپنی ذات کا بھوت ہر طرف ناچتا دکھائی دیتا ہے اسی لئے ممکن ہی نہیں کہ خود پرستی کا شکار کوئی فرد اپنی غلطی اور مرض کی حدود کا تعین کر پائے خود ستائشی کا مرض افراد میں ہو یا اقوام میں ہو ہمیشہ ترقی معکوس کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ شخصیت پرستی بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہے بت کا دماغ نہیں ہوتا جو خراب ہوجائے لیکن جب تم انسان کی پوجا کرتے ہو تو وہ فرعون بن جاتا ہے ۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو شخصیت پرستی عروج پر نظر آتی ہے ہمیں یہ اصول یاد نہیں رہا کہ اگر دوسروں کو گرانے میں آپ کو جیت لگے تو سمجھ لیں آپ خود گرے ہوئے انسان ہیں آپ کسی بھی سیاسی رہنما کی پیروی کرتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے سمجھتے کہ جہاں ان لیڈروں نے اچھے کام کئے ہیں وہاں معاشرے کو نقصان پہنچانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ایسے میں کسی کی بھی اندھی تقلید نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی یک طرفہ تنقید وتنقیع ہونی چاہئے بلکہ اچھائی کو اچھائی اور برائی کو برائی ٹھہرانے میں عقل سلیم سے کام لے کر اس کی روشنی میں رائے قائم کرنی چاہئے نہ کہ کسی جنونیت کا شکار ہونا چاہئے جنونیت کی مذہب و سیاست اور معاشرت و خاندان و نظام معاشرت کی کہیں بھی گنجائش نہیں بدقسمتی سے آج کل کے والدین بھی کمال پسندی کا شکار ہیں بلکہ بری طرح شکار ہیں اور وہ اپنے بچوں میں اپنی مرضی اور سوچ کی حد تک کمال دیکھنے کی خواہاں ہیں مگر یہ ممکن نہیں ہر بچے اور ہر شخص کی اپنی سوچ اور استعداد ہوتی ہے کمال پسندی مستقبل و حال دونوں میں مایوسی پیدا کرتی ہے اس لئے کہ یہ غیر حقیقت پسندانہ اور غیر فطری سوچ کی عکاسی کرتی ہے جو مایوسی کا زینہ ہوتی ہے بنا بریں ہماری موجودہ نسل کو عملی تعلیم او رعملیت پسندی کی تربیت اور ان میں اس طرح کی سوچ ابھارنے کی ضرورت ہے جامعات اور دانش گاہوں میں خاص طور پر نوجوانوں کو حقیقی سوچ اور علمیت پسندی سے روشناس کرانے کی ضرورت اس لئے بھی ضروری ہے کہ شخصیت پرستی معاشرے کو تباہی کی طرف لے جانے والا عمل ہے جس کی سیاست سے لے کر معاشرت تک کسی میں بھی گنجائش نہیں ۔ موضوع سخت ہونے کا احساس ہونے پر اب تھوڑی سی دوسری طرف کا بھی تذکرہ کئے دیتے ہیں اس دن کسی جگہ یہ پڑھ کر مجھے بڑا اچھا لگا کہ بد لحاظ افراد اچھی اورمطمئن زندگی گزار جاتے ہیں اس لئے کہ وہ کسی سے سروکار نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی کو اپنے کام میں مخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں وہ اپنے خول میں بند اور اپنی دنیا میں مگن رہنے والے ہوتے ہیں ایسے لوگ کسی کا برا نہیں سوچتے روابط کم سے کم رکھتے ہیں اور مرضی کے لوگوں ہی وہ بھی معدودے چند اپنے قریب آنے دیتے ہیں ان کا فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر تعلق غلامی ہے آپ جتنے زیادہ تنہا ہیں اتنے ہی زیادہ آزاد ہیں یہ لوگ عملیت پسند ہونے کی بناء پر اپنے فیصلے خود اور حالات کو دیکھ کر کرتے ہیں محدود اور اچھی زندگی مرضی کے مطابق گزار جاتے ہیں ضروری نہیں کہ ہر کوئی ایسا ہو اپنے ارد گرد اس طرح کے لوگوں پر میں نے توجہ دی توواقعی یہ لوگ مجھے اچھے لگے لیکن ایسا ہونا مشکل لگا ۔ خود پرست اور نرگسیت کا شکار لوگ دوسروں کے لئے جس طرح بھی ہوں اپنے آپ کے لئے یہ بھی برے نہیں ہوتے۔
کوئنز یونیورسٹی کی تحقیق میں 700 افراد کی شخصی عادات پر ہونے والی 3 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔نتائج سے معلوم ہوا کہ خود پرستی کی ایک قسم گرینڈ ڈی اوس یا اپنی شان و شوکت ظاہر کرنے والے افراد میں ذہنی مزاحمت بڑھ جاتی ہے جس سے ڈپریشن کی علامات کم سامنے آتی ہیں۔تحقیق کے مطابق ایسی شخصیت رکھنے والے افراد کے اندر اپنی اہمیت کا احساس بہت زیادہ ہوتا ہے، ان میں تنائو کی شرح بھی دیگر سے کم ہوتی ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ خودپرستی کی 2 جہتیں ہوتی ہیں شان و شوکت کا اظہار اور مظلومیت کا احساس۔مظلومیت کا احساس رکھنے والے خودپرست افراد دفاعی انداز رکھتے ہوئے دیگر کے رویوں کو مخالفانہ سمجھتے ہیں جبکہ دوسری قسم کے افراد میں اپنی اہمیت کا احساس بہت زیادہ ہوتا ہے اور اپنی حیثیت اور اختیار کا احساس انہیں آسمان پر چڑھا دیتا ہے۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن