بائیڈن مودی اعلامیہ ،سو جوتے اور سو پیاز

بھارت کے وزیر اعظم نریندرمودی کا امریکہ کے سٹیٹ وزٹ کے دوران پرتپاک استقبال کیا گیا ۔استقبال کے اس گرم جوش مظاہر ے میں کسی طور پر بھی یہ نہیں لگتا کہ انسانی حقوق مساوات شہری آزادیوں جمہوری روایات اور اقدار کے دعوئوں سے مزین دستور رکھنے والا ملک اکیس توپوں کی سلامی کے ذریعے ایک ایسے شخص کو خوش آمدید کہہ رہا ہے کہ جس کا ماضی ایک متعصب ،مذہبی جنونی ،مذہب کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق اور تمیز رکھنے والے اور کسی دور میں اپنے کردار کے باعث امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی کا سامنا کرنے جیسے بوجھ سے لدا ہوا ہے۔چشم فلک نے اول ہائوس سے وائٹ ہاؤس اور کانگریس تک جابجا یہی نظارہ کیا اور نریندر مودی نے ان لمحوں کو تاریخی کہا ۔یہاں تک پریس کانفرنسوں سے بھاگنے والے نریندر مودی کا اعتماداس قدر بحال ہوا کہ انہوںنے وائٹ ہائوس میں جوبائیڈن کے پہلو میں کھڑے ہوکر میڈیا کے سوالوں کا جواب دیا اور میڈیا کے نرم سوالوں کے جواب میں اس بات سے قطعی انکار کیا کہ وہ بھارت میں کسی تقسیم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔نریندرمودی نے فقط یہ کہہ کر اپنے پورے ماضی سے دامن چھڑالیا کہ ہندوستان میں امتیاز کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جا رہا ہے تو پھر آئے روز مساجد اور گرجے کیا مریخ پر جلائے جاتے ہیں ۔پھر بلڈوزر وں کے ذریعے کس سیارے میں غیر ہندوئوں کے گھر گرائے جاتے ہیں اور جہاں گائے کا گوشت ملنے کی بنیاد پر لوگوں کو ہجوم کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتارنے کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں وہ کس دنیا اور کس جہان کی باتیں ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ جو بائیڈن نے بھی نریندرمودی کا کہاسچ مان لیا اور کہا کہ ہمیں ہندوستان کے ڈی این اے پر بھروسہ ہے کہ وہاں اقلیتوں کے ساتھ امتیاز روا نہیں رکھا جاتا ۔جب وائٹ ہائوس میں یہ ناز برداریاں جاری تھیں تو باہر کچھ آزاد ضمیر لوگ مودی کی اس غیر معمولی پزیرائی کے خلاف سراپا احتجاج بھی تھے ۔وائٹ ہائوس کی ملاقاتوں کے بعد دوسرا اہم پروگرام امریکی کانگریس سے نریندرمودی کا خطاب تھا جہاں کانگریس کے ارکان کھڑے ہوکر تالیاں بجا تے ہوئے نریندر مودی کا استقبال کیا ۔جوبائیڈن نے انہیں اکیسویں صدی کے سب سے فیصلہ کن تعلقات قرار دیا ۔نریندرمودی کے دورہ امریکہ میں دونوں ملکوں نے بہت سے معاہدات کئے جن کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات تاریخ کی بلندترین سطح پر پہنچ گئے ۔جن میں پانچ امریکی قونصل خانوں کے ہوتے ہوئے تین مزید قونصل خانے کھولنے کا فیصلہ بھی شامل ہے ۔بات امریکہ کے دو طرفہ تعلقات تک رہتی تو کچھ عجب نہیں تھا مگر ہوا یوں کہ
ذکر جب چل پڑا قیامت کا ۔بات پہنچی تیری جوانی تک
امریکہ اور بھارت کے سربراہان کے درمیان ہونے والی ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا تو وہ پاکستان کے ذکر سے لبریز تھا ۔پلٹ پلٹ کر پاکستان کو دہشت گردملک جتلایا گیا تھا اور اسے ہدایات کے انداز میں کچھ ناپسندیدہ ناموں اور تنظیموں کے خلاف کاروائی تیز کرنے کا کہا گیا تھا ۔جوبائیڈن اور نریندرمودی دہشت گردی کا مشترکہ منترا پڑھ رہے تھے اور یہ پڑھتے ہوئے ان کی نظریں کہیں اور نہیں پاکستان پر مرکوز تھیں۔مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ دونوں ملک سرحد پار دہشت گردی اور پراکسی گروپوں کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دہشت گرد حملوں کے لئے استعمال نہیں ہو گی۔امریکہ اور انڈیا دہشت گردی کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہیں ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ہرشکل کی مذمت کرتے ہیں ۔پاکستان کے ساتھ تحکمانہ انداز اپناتے ہوئے القاعدہ ،داعش جیش محمد حزب المجاہدین لشکر طیبہ کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تھا ۔ممبئی اور پٹھانکوٹ حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔دونوں ملکوںنے عالمی سطح پر دہشت گردی کے مقاصد کے لئے ڈرون یواے ویز کے استعمال پر تشویش ظاہر کی تھی اور فیٹف سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ کے خلاف عالمی سطح پر عمل درآمد کو مزید موثر بنادیاجائے ۔ڈرون ٹیکنالوجی کا دہشت گردی کے لئے استعمال بھی سیدھے لفظوں میں پاکستان کو ہی پیغام تھا کیونکہ بھارت آئے روز یہ الزام لگاتا ہے کہ پاکستان نے اس کے فلاں علاقے میں ڈرون کے ذریعے اسلحہ یا بارودی مواد گرایا۔اسی طرح فیٹف کا ذکر بھی پاکستان کے لئے پیغام ہے کہ اگر وہ امریکہ اور بھارت کی توقعات پر پورا نہ اُترا تو وائٹ لسٹ سے گرے اور بلیک لسٹ میں نام پڑنا زیادہ مشکل نہیں۔امریکہ اور بھارت کا یہ مشترکہ اعلامیہ کا ایک بڑا حصہ پاکستان سینٹرک ہی نظر آتا ہے اور کسی طور بھی نہیں لگتا کہ ایک ایسے ملک کا ذکر ہو رہا ہے جو اپنا سفر ادھورا چھوڑ کر دوبارہ امریکہ کی طرف مڑ چکا ہے ۔امریکہ کے دبائو پر اپنے تزویراتی اہداف کو ترک کررہا ہے ۔اس اعلامیے سے صاف جھلکتا ہے کہ امریکہ اور بھارت نائن الیون کی ذہنیت اور ماحول سے باہر نہیں نکل سکے۔امریکہ کی ترجیح اول دوستی تعلق تزویراتی اور سیاسی رشتوں کا محور بھارت ہے اور وہ بھارت کی راہ کے کانٹوں کو آج بھی پلکوں سے چننے پر یقین رکھتا ہے ۔ایسا نہ ہوتا تو مشترکہ اعلامیہ میں تنظیموں کے ناموں کی فہرست بیان نہ کی جاتی ۔یہ وہ تنظیمیں ہیں جن سے بھارت بیزار رہا ہے اور امریکہ بھارت کی اس بیزاری میں پوری طرح شریک ہے۔امریکہ آج کے عہد میں چین کا اپنا دشمن نمبر ایک قرار دے چکا ہے اور اس کا خیال ہے کہ وہ بھارت کا قدجاوبے جا اونچا کرکے اس کی چکاچوند کو اس قدر بڑھا کر کہ دنیا کی نظریں خیرہ ہوجائیں چین کے مقابلے کی ضرورت پورا کر سکتا ہے ۔اسے خطے میں بھارت کے اس قد کاٹھ کی راہ میں کوئی رکاوٹ اور ہمسری قبول نہیں او رپاکستان کے لئے تو سکرپٹ میں سرے سے ایسے کسی رول کی گنجائش ہی نہیں ۔امریکہ کی تمام نوازشات بھارت پر ہیں اور اس کھیل میں پاکستان کا کردار محض بارہویں کھلاڑی کا ہے ۔امریکہ پاکستان کو اس سفر میں صرف اس حد تک ”انگیج ”رکھنا چاہتا ہے کہ وہ چین کے ساتھ مل کر کوئی مہم جوئی نہ کرے ۔یہ وہ نقطہ ہے جہاںبھارت کے لئے امریکہ کی سکیم ناکام ہو سکتی ہے۔گویا کہ دوستی تعلق رشتے ناتے دفاعی تعاون خلاوں اور سمندروں کی تسخیر کی مہمات سب بھارت کے لئے مختص ہیں اور پاکستان کے ساتھ فقط انگیجمنٹ گویا کہ دولفظوں کا تعلق ہے ۔یوں بائیڈن مودی مشترکہ اعلامیہ کا پاکستان کے لئے مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں سوجوتے بھی کھانے ہیں اور سو پیاز بھی ۔

مزید پڑھیں:  تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے بلاتاخیراقدامات کی ضرورت