بنگلہ دیش کی ترقی اور پاکستان کی تباہی کا موازنہ

میں ادب و لسانیات کے ساتھ ساتھ پلاننگ کا بھی گزشتہ پندرہ برس سے طالب علم ہوں دو ہزار سات میں لندن یونیورسٹی اور برٹش کونسل کے تعاون سے لیڈرشپ اسٹریٹیجیک پلاننگ کا ایک طویل ایم ایس لیول کاکورس جب ہم نے مکمل کیا تو یہ ادراک ہوا کہ دنیا میں کچھ بھی بغیر پلاننگ کے ممکن نہیں ہے ۔پاکستان کی ساٹھ کی دہائی کی ترقی کا راز بھی محبوب الحق صاحب اور ان کے رفقاء کی کم مدتی ،وسط مدتی اور طویل مدتی پلاننگ ہے جس پر ایک دہائی عمل پیرا ہوکر ہم نے وہ ترقی کی تھی جس کا تصور اس وقت کی تیسری دنیا کے کسی بھی ملک میں ممکن نہیں تھا ۔ اس لیے کہ اس دور میں ہم نے اپنے وسائل کو حقیقی معنوں میں استعمال کرنا شروع کردیا تھا اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال کر اس کے ثمرات حاصل کرنا شروع کردئیے تھے ۔ اس کے بعد کی کہانی سب کے سامنے ہے شخصی مفادات اور گروہی ، لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دے کر ہم نے اس ترقی کرتے پاکستان کو اس حال تک پہنچایا جس میں اس وقت مہنگائی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جہاں ستر فیصد سے زیادہ کی آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے تعلیمی نظام صرف کاغذی ڈگریاں بانٹ رہا ہے ،امن و امان کی صورتحال اتنی مخدوش ہے کہ زندہ گھر واپسی کو سب معجزہ سمجھتے ہیں یہاں پولیس ، مولوی ، استاد ، تاجر کوئی بھی محفوظ نہیں ہے شرح سود 22 فیصد ہے اور مزدور کی یومیہ مزدوری چھ سو روپے سے بھی کم ہے جس کی بنیاد پر صرف آٹا بھی نہیں خریدا جاسکتا ۔ ریلوے کے حادثات معمول ہیں ، پاکستان کے سات ائیر پورٹس عملاً بند ہوچکے ہیں، باقی کے سودے عربوں کے ساتھ جاری ہیں ،سٹیل ملز کو زنگ لگ گیا ہے ، پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل بھوت بنگلہ بن چکے ہیں ،حج کرنے کے اخراجات فی کس بارہ لاکھ سے زائد ہوچکے ہیں ، کراچی کے ساٹھ فیصد علاقے میں پینے کا پانی مافیاز کے ٹینکروں سے روزانہ کی بنیاد پر پندرہ سو روپے دے کر لوگ خرید رہے ہیں ، بجلی گیس اور تیل کی قیمت سات گنا سے بھی زیادہ بڑھائی جا چکی ہے ۔چینی ،گھی ،دالوں ، چائے ، آٹے ، مرغی کے گوشت کے نرخ صرف چار برسوں میں چھے گنا بڑھ چکے ہیں ۔دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ سو گنا سے بھی زیادہ ہوچکا ہے ۔ان سب کا لنک طویل مدتی منصوبہ بندی نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔پاکستان میں گزشتہ چالیس برسوں سے زائد کا عرصہ دیکھا جائے تو ایک سے ایک نااہل کرپٹ اور جاہل کو حکمرانی کیلئے سامنے لایا گیا جنہوں نے وقتی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے یا دوسرے الفاظ میں اپنی جیبیں بھرنے کیلئے ملکی کی ترقی کو مکمل داؤ پر لگا یا ۔ ریلوے کی زمینوں پر قبضہ کرکے وہاں غیر ضروری لوگوں کو بھرتی کرکے ، پی آئی اے ، سٹیل مل، او جی ڈی سی ،پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان اور دیگر اداروں میں اپنے سیاسی کارندوں کو ہزاروں کی تعداد میں نوکریاں دے کر ان اداروں کو عملی طور پر مفلوج کیا گیا اور جو ادارے منافع بخش تھے ان کو اپنے فرنٹ مینوں کو فروخت کردیا گیا ۔ یوں ہماری یہ حالت ہوئی ۔ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش جو ہم سے 1971 میں الگ ہوا وہاں بھی یہی صورتحال تھی مگر گزشتہ دس بارہ برسوں میں وہاں اصطلاحات کا سلسلہ شروع ہوا وہاں کے معاشی ماہرین نے اپنے ساتویں پانچ سالہ پلان 2015تا 2020 اورآٹھویں پانچ سالہ پلان 2020-2025 بنا کر اس پر عمل درآمد شروع کیا جس کے 2020تک وہ کرشماتی اثرات وہاں کی اکانومی اور ترقی پر پڑے کہ دنیا حیران رہ گئی ، اس کامیابی کو دیکھ کر ان کے پلاننگ ڈویژن نے ایک بڑ ا اور طویل بیس سالہ پلان بھی بنایا جو پلان 2021-2041 کہلاتا ہے اور اب وہ اس پر عمل پیرا ہیں ۔2020 میںان کا گروتھ ریٹ 8.2 تھا جسے وہ 2031 میں9 فیصد اور 2041 میں 9.9 پر لے جانا چاہتے ہیں ۔ 2020میں وہاں انتہائی غربت کی شرح 9.4فیصد تھی 2031میں وہ اس کو 2.3اور 2041 میں اسے صرف ایک فیصد تک لے جانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔ وہاں غربت کی شرح 2020میں 18.8فیصد تھی جسے 2031 میں 7فیصد اور 2041 میں 3 فیصد تک لانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں ۔ان کا پانچ سالہ پلان اور بیس برس کا پلان دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کی سوچ ہم سے کتنی آگے ہے ، بنگلہ دیش نے اپنے تمام وسائل کا ڈیٹا جمع کیا ہے اپنی آبادی کی ضروریات کا درست تخمینہ بھی لگایا ہے اور اپنے مقاصد تک پہنچنے کیلئے وہ تمام اقدامات کیے جو ضروری تھے ۔ سب سے پہلا کام جو انہوں نے آج سے دس برس پہلے سے شروع کیا وہ اپنی تعلیم کے شعبہ میں سرمایہ کاری ہے اس لیے اپنے تعلیمی بجٹ کو بیس گنا سے بھی زیادہ بڑھا دیا اور اپنے تعلیمی نظام کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کردیا لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو ترک کرکے حقیقی معنوں میں تعلیم دینے کی شروعات کی ، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے آئی ٹی کو اپنی ترقی کا محور بنادیا جس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی ترقی ستر گنا بہتر ہوگئی اور اس کی وجہ سے ان کا جی ڈی پی بائیس گنا بڑھ گیا ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی صنعتوں پر توجہ دی اور ہر صنعت کو درکار سہولت مہیا کردیں خصوصاً کاٹن کی مصنوعات کو ترقی دی جس کی وجہ سے پاکستان ، انڈیا اور دیگر ممالک سے سرمایہ کاروں نے اس صنعت میں پیسہ بھی لگایا اور اپنے اپنے ممالک سے اپنے کارخانے بند کرکے خام مال بنگلہ دیش بھیجوانا شروع کردیا اور پانچ برسوں میں بنگلہ دیش کی کارٹن سے بنے اشیا ء کی ایکسپورٹس سات سو گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئیں جس سے انہیں کثیر زرمبادلہ حاصل ہونا شروع ہوگیا ۔ بنگلہ دیش نے اپنے شہروں میں جدید ٹاؤن پلاننگ کے اصولوں سے کام شروع کردئیے جس کی نتیجے میں وہاں کے باشندوں نے گنجان آبادی کے باوجود سکھ کا سانس لیا ، بنگلہ دیش میں سب سے بڑا مسئلہ سیلابوں کا تھا اس کے سد باب کیلئے تمام عملی کام کیے جس کے نتیجے میں سیلابوں کے نقصانات کم ہوکر صرف بیس فیصد رہ گئے ۔ خواتین کو روز گار کے مواقع فراہم کیے گئے اور ان کو صنعتوں میں بطور ورکر مراعات اور سہولیات دے کر اپنی ورک فورس کو دگنا کردیا ۔ ہر شہر میں آئی ٹی کے جدید سینٹر ز بناکر نوجوانوں کو فری تربیت دے کر انہیں آن لائن بزنس کی طرف راغب کیا اور دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً امریکہ سے معاہدے کرکے وہاں اپنے آئی ٹی ایکسپرٹ کو بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں جاب کی راہ آسان کی۔ اپنے بنکنگ سسٹم کو نہایت ہی آسان اور سہل کردیا ، آپ کسی بھی بنگلہ دیشی بنک میں بغیر کسی روک ٹوک دنیا کے کسی بھی حصے سے بغیر کوئی ادائیگی کیے جتنی چاہیں رقم بھیج سکتے ہیں ۔اس لیے وہاں ہنڈی اور حوالے کا سلسلہ مکمل ختم ہوگیا ۔وہاں کی فی کس آمدنی اس وقت سات ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہوگئی ہے اور اگر ترقی کی یہی رفتار رہی تو چند برسوں میں یہ دس ہزار ڈالر فی کس ہوجائے گی ۔اس وقت بنگلہ دیش کے صرف سرکاری بنک کے پاس پچاس ارب ڈالر سے زائد کی رقم پڑی ہے اور جو دیگر بنکوں میں ہے وہ اس کے علاوہ ہے ۔یہ ساری ترقی صر ف اور صرف منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے ۔ تعلیم پر پیسہ خرچ کرنے کا نتیجہ ہے اور ہمارے ہاں کیا صورتحال ہے منصوبہ بندی تو دور کی بات ہم نے کبھی اس بات کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی کہ ہمارے ملک کے بنیادی مسائل کیا ہیں ان کا حل کیا ہوسکتا ہے ، وسائل کتنے ہیں ان کو استعمال کیسے کیا جاسکتا ہے اپنے ملک میں روز گار کے مواقع کیسے پیدا کیے جائیں؟ ، بس کبھی مرغیاں ، کبھی انڈے ، کبھی تعویز کبھی گنڈے کبھی ملی نغمے اور کبھی ہم زندی قوم ہیں پائندہ قوم ہیں کے نعرے ۔ بنگلہ دیش کے دونوں پانچ سالہ اور بیس سالہ منصوبہ بندی پلان انٹرنیٹ پر پڑے ہوئے ہیں ان تین ہزار سے زیادہ صفحوں کو پڑھ کر جو آپ کی کیفیت ہوگی وہ میں لکھ نہیں سکتا ۔پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے پاس تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہیں اور ہم چالیس کروڑ کا صرف ایک جھنڈا بناکر ایک دن لہرائیں گے۔ایک ناکام حکومت جس نے ملک کاستیاناس کردیا ہے اس کی تشہیر پر پانچ ارب روپے دو ہفتوں میں خرچ کریں گے،اشرافیہ کے پیٹرول پر سالانہ تین سو ساٹھ ارب خرچ کریں گے ۔

مزید پڑھیں:  سیاست اپنی جگہ صوبے کا مفاد مقدم