یک نہ شد دو شد

ایک مرتبہ پھر گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ایک ایسے وقت کیاگیا ہے جب آئی ایم ایف سے معاملت جاری ہے آئی ایم ایف کی جانب سے متعلقہ اداروں سے گیس کا ریٹ بڑھا کر 435 ارب روپے جمع کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ‘ اس سلسلے میں آئی ایم ایف گیس کے نرخ بڑھانے میں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہے گیس کے ریٹ میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگااور صارفین اکتوبر تا دسمبر کے بلوں میں جولائی تا ستمبر کے واجبات ادا کریں گے ‘ جہاں تک گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کا تعلق ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے برسراقتدار رہنے والی حکومتوں کایہی وتیرہ رہا ہے کہ گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ‘ تاہم اب حالات بہت زیادہ بد ل چکے ہیں اور کیا بجلی ‘ کیا گیس بلکہ کیا پٹرولیم مصنوعات آئی ایم ایف کے دبائو پر ان سہولیات کی قیمتوں میں اضافے کے لئے کوئی خاص موسم مختص نہیں ہے ‘ پٹرولیم مصنوعات تو ہرماہ مہنگی ہو رہی ہیں ‘ بجلی کے نرخوں میں بھی جو بے حد اضافہ کیا جا رہا ہے اس کا بھی سردی گرمی سے کوئی ناتا یا واسطہ نہیں رہا’ اور اب اکتوبر سے گیس کے نرخ بڑھائے جا رہے ہیں مگر اس کااطلاق یکم جولائی کے بلوں پر کرتے ہوئے بقایا جات وصول کئے جائیں گے ‘اور بقایا جات بھی اس سہولت کے جودستیاب ہی نہیں ‘ یعنی گیس ندارد ‘ بل حاضر ‘ اس پر سبحان اللہ کہنے میں کیا حرج ہے ۔اب تو اس تسلسل کے ساتھ ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ گزشتہ ماہ کے بل اور آئندہ ماہ کے بلوں میں نمایاں فرق واضح ہے گیس ہو یا بجلی کے بل حکومت کوصارفین کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرکے قرضے کی قسط لینا ہوتی ہے اور آئی ایم ایف اب پہلے کی طرح رعایت دینے پرتیار نہیں یا پھر ان کا حکومت پراعتبار اٹھ گیا ہے اس لئے پیشگی اقدامات عملی بنوا کر ہی آئی ایم ایف قرضے کی قسط جاری کرتی ہے بجلی اور گیس کی قیمتوں کااطلاق بھی سابقہ استعمال شدہ یونٹوں پر پچھلی تاریخوں میں ہوتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ بجلی کے مزید بقایا جاتا سردیوں میں اور گیس کے مزید بقایا جات گرمیوں میں وصول کرنے کا حربہ اختیار کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں:  ''روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت''؟