پاک افغان کشیدگی

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے درست کہا ہے کہ چند افغان رہنمائوں کے غیر ضروری، غیر ذمے دارانہ دھمکی آمیز بیانات فضا کو خراب کر رہے ہیں، ان کے بیانات کے بعد دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں غیر معمولی تیزی معنی خیز اور ریاست پاکستان کے خدشات کی توثیق کرتی ہے، دہشت گرد افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے افغان عبوری حکومت سے مطالبہ کیاکہ وہ بھی دہشت گردی میں ملوث وہاں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کوپاکستان کے حوالے کرے اور پاکستان ایسے تمام لوگوں کو وصول کرنے کے لئے تیار ہے۔ نگراں وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے حملوں کی معلومات افغانستان کو فراہم کی گئیں، افغانستان کی عبوری حکومت کو ادراک ہونا چاہیے کہ دونوں خود مختار ممالک ہیں۔بدقسمتی سے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد دہشت گردی میں 60 فیصد اضافہ ہوا، جب بھی افغانستان پر کوئی مصیبت آئی پاکستان نے بھرپور مدد کی، 40 لاکھ افغان شہریوں کو کھلے دل سے خوش آمدیدکہا اور ان کی بھر پور دستگیری کی۔ نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ اُمید ہے کہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گی، افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہمارے اور افغانستان کے حق میں ہے۔دریں اثناء افغانستان سے پاکستان آنے والے مسافروں سے طورخم بارڈر پر امارات اسلامی نے پاسپورٹ چھین لئے،افغانستان سائیڈ طورخم میں پھنسے ہوئے مسافر نے رابطہ کرکے بتایا کہ پاسپورٹ ویزے کے باوجود بھی ہم سے پاسپورٹ چھین کر ہمیں پاکستان جانے نہیں دیتے ہیں انہوں نے کہا کہ طورخم بارڈر افغانستان سائیڈ پر سینکڑوں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جن سے زبردستی پاسپورٹ چھین کر جانے نہیں دیتے ہیں انکا کہنا تھا کہ افغانستان سائیڈ طورخم میں پھنسے ہوئے افراد میں مسافر و مزدور شامل ہیںکہ طورخم گمرک کے امارات اسلامی کے ذمہ دار نے ہمیں یہ احکامات جاری کئے کہ آپ کو پھر نہ آنے کی شرط پر چھوڑ دیا جائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ ایک مرتبہ پھر چترال میں پاک افغان سرحد پر سکیورٹی فورسز نے خفیہ معلومات پر چترال میں پاک افغان سرحدی علاقے ارسون میں آپریشن کیا۔ آپریشن کے دوران دہشت گردوں سے شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ علاقہ میں بچے کھچے دہشت گردوں کی تلاش کے لئے آپریشن جاری ہے اس تمام صورتحال کے بعدایسا لگتا ہے کہ اب پاکستان اور امارت اسلامی کے درمیان روایتی روابط تو درکنار دونوں ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں لیکن اس کے باوجود حسن ظن کا تقاضا ہے کہ اسے دونوں ملکوں کے درمیان وقتی خلش قرار دیا جائے اور امید کی جانی چاہئے کہ اس سنگین صورتحال اور کشیدگی میں دونوں ممالک کی قیادت ہوشمندی کا مظاہرہ کرے گی خوش امیدی کی سب سے بڑی وجہ افغانستان کی موجودہ حکومت اور اس کے عہدیداروں کو ایک نسل کے جواں ہونے تک پناہ اور ان کی میزبانی کے ساتھ ساتھ جہاں افغانستان کی اخلاقی حمایت یہ پاکستان ہی تھا جس نے اقوام متحدہ سے لے کر ہر سطح پر افغانوں کی رضا کارانہ نمائندگی کی اتنے گہرے اور برسوں پر محیط تعلقات چند ایک اختلافی امور پر اگرمتاثر ہوئے تو یہ بڑی بدقسمتی ہوگی افغان حکومت کو پاکستان کے پڑوسی ممالک کے ساتھ روابط بڑھانے کا پورا پورا حق حاصل ہے لیکن اس کا مدعا و مقصد اگرپاکستان کو دبائو میں لانا ہے تو یہ ان کی سب سے بڑی غلطی ہو گی ایران اور ہندوستان امارت اسلامی کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی عقیدت سے لے کر دیگر مفادات میں وہ اسلامی امارت کو ان کے مفاد میں خلوص نیت کے ساتھ شریک کرسکتے ہیں بہرحال وزیر اعظم کی سطح پر پریس کانفرنس کرکے صورتحال کے حوالے سے تشویشناک گفتگو خاصا سنجیدہ معاملہ ہے بدقسمتی سے پاکستان کے خلاف نفرت کو ہوا دینے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کی سرزمین پر وقت گزارا اور مشکل وقت میں یہاں پناہ لی رنگ روڈ پراوجھڑی فروخت کرنے والے خود ساختہ جنرل کے دل آزار ٹک ٹاک سے پاکستان اور پاکستانیوں کا تو کچھ نہیں بگڑے گا الٹا نمک خواری پر سوالات اٹھیں گے بہرحال اس جملہ معترضہ سے قطع نظر جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے پاکستان میں اعداد و شمار کی روشنی میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے او ر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے جسے روکنا دوحہ معاہدے کے تحت ہی افغان حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ بین الاقوامی اصولوں کا بھی تقاضا ہے کہ کابل کی حکومت اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے نہ دے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کے باشندوں کی واپسی ہر دوحکومتوں اور ریاست کا حق ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے نہ تو پاکستانی حکام اور نہ ہی افغان حکام کی جانب سے بلاوجہ تنگ کرنے اور احترام سے پیش نہ آنے کی کوئی گنجائش نہیں بہتر ہو گا کہ ان شکایات کا ہر دو جانب سے ازالہ کیا جائے اور جملہ غیر ملکی باشندوں کی ہر دو ممالک واپسی کاعمل خوش اسلوبی سے مکمل کرنے کے بعد قانونی اور دستاویزی طور پر آمدورفت کوسہل بنائیں ترجیحی بنیادوں پر روزانہ بڑے پیمانے پر ضرورت کے مطابق ویزے جاری کئے جائیں اور بلاوجہ کی رکاوٹوں کا خاتمہ کیا جائے افغان حکومت کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت اور مساعی کے ذریعے تعلقات کو معمول پر لانے میں پہل کرنی چاہئے اور بلاوجہ کی نفرت انگیزی سے پرہیز کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن