آئی ایم ایف کے دبائو کے علاوہ بھی کچھ کرنے کی ضرورت

آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کی معاشی ٹیم کے مذاکرات جاری ہیں جب کہ اس دوران عالمی مالیاتی فنڈ کے یکے بعد دیگرے بڑھتے مطالبات بھی ہر سیشن میں سامنے آتے جا رہے ہیں۔اس مرتبہ آئی ایم ایف نے رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس کے سختی کے ساتھ نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جن شعبوں سے ٹیکس وصولی کم ہے،وہاں ٹیکس پالیسی موثر بناکر انفورسمنٹ کی تجویز دی گئی ہے۔آئی ایم ایف نے ریٹیلرز اور زرعی شعبہ سے بھی ٹیکس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور ٹیکس وصولی میں شارٹ فال کی صورت میں فوری طورپرنئے اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ ریٹیلرزپر فکسڈ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز زیرغور ہے تاہم آئی ایم ایف اس پر رضا مند نہیں ہے اور آئی ایم ایف نے زرعی آمدن کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے صوبوں سے ٹائم لائن طے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایف بی آر ذرائع کا بتانا ہے کہ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ جن شعبوں سے ٹیکس وصولی کم ہے وہاں سے پورا ٹیکس لیا جائے۔ مالیاتی اور زری اہداف سے انحراف کی صورت میں3ارب ڈالر کے جاری قرض پروگرام کے وسیع مقاصد کو خطرہ ہونے کی صورت میں نگران حکومت اور عالمی مالیاتی ادارہ(آئی ایم ایف)کے درمیان سال کے آخر تک بیک اپ اقدامات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ درآمدات میں اضافے کے ذریعے حاصل کردہ محصولات کے اہداف آئی ایم ایف کے مشن کے لئے باعث تشویش ہیں کیونکہ درآمدات اب تک بجٹ 2023-24 اور جولائی میں قرض کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے وقت توقعات سے کم ہیں۔ان میں سے کوئی بھی صورتحال ہوتی ہے تو ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ دونوں شعبوں کو یکم جولائی2024سے محصولات میں اپنا نمایاں حصہ بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔ذرائع نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں وفاقی اور صوبائی سطح پر ترقیاتی اخراجات کم کرنے کے حوالے سے دونوں جانب سے کوئی بڑے مسائل سامنے نہیں آئے، لیکن زرعی آمدنی پر ٹیکس کے موثر نفاذ کا معاملہ آئینی حدود کے باعث نگران حکومت کے ایجنڈے پر نہیں ہے، تاہم آئی ایم ایف مشن نے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔اگرچہ آئی ایم ایف سے حصول قرض کو قومی عیب اور باعث طعنہ بنا دیاگیا ہے اور آئی ایم ایف کو عوام پر بوجھ ڈلوانے کا ذمہ دار ٹھہرایاجاتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں اس لئے کہ آئی ایم ایف ہمیں قرض دینے کے لئے رجوع نہیں کرتا بلکہ ہماری حکومتیں حصول قرض کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرتی ہیں جہاں تک آئی ایم ایف کی فرمائشوں دبائو ڈالنے اور شرائط عائد کرنے کا تعلق ہے ظاہر ہے جوبھی مالیاتی ادارہ کسی حکومت ‘ ادارے یاپھر فرد کو قرض دے حصول قرض اور وصولی کا ا نتظام پیشگی دیکھنے یقین کرنے اور یقین دہانیاں و ضمانت حاصل کرنا ان کا حق اور مفاد کاتقاضا ہوگا مشکل امر یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور پالیسی ساز اب سا ہوکار قرض دہندہ جتنے بھی عوام کے خیر خواہ نہیں رہے آئی ایم ایف عوام کو ریلیف اور ٹیکس کی ادائیگی کی استطاعت رکھنے والوں پر ٹیکس عائد کرنے پر زور دیتا ہے لیکن چونکہ ہماری حکومت عوام کی نمائندہ نہیں بلکہ اشرافیہ کے مفادات سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہے اس لئے ہر باربجلی ‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ دراضافہ کرکے قرض واپسی کا انتظام کرنے پر متوجہ رہی ہے آئی ایم ایف کی جانب سے محولہ گنجائش والے شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کے مطالبات پر حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث اب بالاخر آئی ایم ایف ان مخصوص شعبوں پر بطور خاص ٹیکس عائدکرنے کے مطالبے میں سنجیدگی کے ساتھ سختی برتنے پر مجبور ہوتی ہے جس سے اس امر کی توقع کی جا سکتی ہے کہ اب حکومت ان شعبوں پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی طرف متوجہ ہو گی اس کے علاوہ کوئی چارہ کار بھی باقی نہیں رہا لیکن اس کے باوجود بھی کم از کم اشرافیہ کی نمائندگی حکومت سے پھر بھی لیت و لعل کرنے ہی کی توقع ہے زرعی آمدنی پر ٹیکس چونکہ آئینی معاملات سے منسلک ہے اس لئے اس بارے ضروری قانونی اصلاحات کے بعد آئندہ حکومت ہی ٹیکس عائد کر سکے گی البتہ بطور ریاست اگر اس موقع پر ہی اس پر اتفاق ہوجائے تو آنے والی حکومت پرکوزیادہ دبائوکا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور یہ پہلا قدم اور پیشرفت ہو گی۔ بہرحال جوبھی صورتحال ہو ہر بار عوام ہی کو زیر بارلانے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے اور حکومت کو اس پالیسی پر نظر ثانی کرکے گنجائش کی حامل شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ٹیکس وصولی کویقینی بنانے کی طرف سنجیدہ اور ٹھوس پیش رفت کی ذمہ داری نبھانی چاہئے۔پراپرٹی سیکٹر پرٹیکس کا نفاذ کوئی ایسا سنگین اورمشکل مسئلہ نہیں حکومت کو اب ان مخصوص شعبوں کو اب مزید ٹیکس کے دائرہ کار سے باہر نہیں رکھنا چاہئے اور ٹیکس وصولی کے نظام کوبھی مزید منظم بنانے میں بھی اب تاخیر کی گنجائش نہیں زیادہ بہتر تو یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے دبائو کی نوبت نہ آتی مگراب جبکہ دبائو بھی درپیش ہے اور اس کے بغیر کوئی اور راستہ باقی بھی نہیں بچا تو دیر آید درست آید کے مصداق اس حوالے سے مزیدتاخیر وقت کا ضیاع ہوگا جس کی گنجائش نہیں۔

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے