افغان شہریوں کی وطن واپسی اور خیبر پختونخوا

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔حکومت پاکستان کو دیر سے سہی لیکن اپنے ملک کو سنوارنے کا خیال آہی گیا ہے ۔ گزشتہ چار سے زائد دہائیوں میں ہم نے مملکت خداداد کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ترقی کے راستے پر ڈالنے کے بجائے اسے دیگر ممالک کی پروکسی جنگوں میں جھونک دیا تھا جس کی وجہ سے ہماری معیشت ، صنعتیں ، زراعت، تعلیم ، ملکی انتظام،اور عوامی مفاد سب داو پر لگ گیا تھا ۔ ہم سے بہت کمزور اور انتہائی کم وسائل والے ممالک ہم سے کہیں آگے نکل گئے ۔ہم نے افغان مہاجرین کو یہاں بسایا ان کو قانون سے ماوراء سہولتیں دیں ۔ان کو لوٹ مار ،اسمگلنگ ، اغوائ، ٹیکس چوری منشیات کی سمگلنگ و فروخت ہر اس کام کی کھلی اجازت دی جو ایک عام پاکستانی کے لیے قانوناً اور عملاً قابل گرفت ہیں ۔ان کے لیے خیبر پختونخوا ، قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کی ترقی اور امن کو بلی چڑھایا گیا ۔ہمارے لاکھوں شہری ہلاک ہوئے ،اس خطے کا امن تباہ ہوا ،یہاں کے کاروبار ختم ہوئے ، یہاں سیاحت ختم ہوگئی ، یہاں کے مکین ذہنی اور نفسیاتی بیماریوںکا شکار ہوئے ۔ یہاں تعلیم کے بجائے امریکی مفاد کے لیے جہادی پیدا کرنے پر توجہ دی گئی یہی نہیں بلکہ اس خطے کے لوگوں کا تشخص بیرون دنیا میں مسخ کیا گیا ۔ہمیں دنیا مہذب انسانوں کی جگہ جاہل اور دہشت گرد کہنے لگے ۔اس سب کی وجہ افغانستان ہے ۔ امریکہ روس سرد جنگ اور پھر اس خطے میں مفادات کی جنگ نے یہاں کے انسانوں کو دنیا سے بہت دور کردیا ہے ۔ امریکی مفادات جب ختم ہوتے ہیں تو ان کی جنگوں کے لیے پروردہ جنگجو ہم پر یلغار کرتے ہیں جس کی وجہ سے نہ مسجد محفوظ ہے نہ پارک ، نہ سکول نہ بازار ۔ ایک خوف کے سائے میں مائیں اپنے بچوں کو صبح رخصت کرتی ہیں اور شام کو جب وہ زندہ لوٹتے ہیں تو شکر کے نفل پڑھتی ہیں ۔ پاکستان نے اپنے گزشتہ غلط حکمت عملی کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے ۔ موجودہ صاحبان اختیار نے جو یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب مزید ایسے جنگوں سے دور ہونا ہی اس ملک کے لیے بہتر ہے ایک نہایت ہی مستحسن اقدام ہے ۔ اس کی شروعات افغان شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے سے ہوئی ہے جو ایک نہایت ہی خوش آئند فیصلہ ہے ۔ ساتھ ہی موجودہ اسٹبلشمنٹ نے ان کاموں پر بھی آہستہ آہستہ گرفت کی ہے جس سے ملکی معیشت تباہ ہورہی تھی ۔ملکی معیشت کی تباہی کا سب سے بڑا سبب سمگلنگ ہے ۔اور یہ ساری سمگلنگ افغانستان اور ایران سے ہورہی ہے اگر حکومت اس سمگلنگ کو ختم کردے تو یقینا یہاں معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے۔ افغان شہریوں کی واپسی کے حوالے سے سندھ ، پنجاب اور بلوچستان میں کافی پلاننگ کے ساتھ کام ہورہا ہے لیکن اس سلسلے میں خیبرپختوخوا میں وہ تیزی اور مستعدی نظر نہیں آرہی ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ان تینوں صوبوں ، وفاق اور گلگت سے ان کو بے دخل کرکے یہاں ان کو جمع کیا جائے اس سے یہ صوبہ مزید تباہی کی طرف جائے گا۔ اس لیے کہ افغانیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان ہمارا ہوا ہے ۔ پشاور شہر ان کے لیے کابل سے بڑھ کر ہے اس لیے کہ یہاں وہ کاروباروں اور گھروں پر قابض ہیں ۔ ان کے بیشتر سمگلنگ ، منشیات اور دیگر غیر قانونی کاموں کے اڈے یہاںہیں ۔یہاں ان کی باقاعدہ بستیاں ہیں ، بازار ہیں بلکہ پورے پورے علاقے ہیں اسی طرح خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں میں بھی ایسا ہی ہے ۔ اس لیے جس رفتار اور محنت سے ان کو پاکستان کے دیگر علاقوں سے نکالا جارہا ہے اسی رفتار اور محنت سے ان کو یہاں سے بھی نکالنا چائیے ۔ورنہ یہاں کے وسائل پر ان کی آبادی کا بوجھ بڑھ جائے گا اور یہاں کے لوگوں کی زندگی مزید تباہی کی طرف چلی جائے گی ۔افغان شہریوں نے حیات آباد اور دیگر رہائشی علاقوں میں گھر خریدے ہوئے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔اسی طرح انہوں نے یہاں کی مارکیٹوں میں بھی دکانیں خرید رکھی ہیں اس طرح انہوں نے صوبہ کے دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی جائیدادیں خریدی ہوئی ہیں ۔ان کو غیر قانونی مدد اور سہولت فراہم کرنے والوں کی بھی یہاں کمی نہیں ہے ۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ حقیقی معنوں میں یہاں کے وسائل پر دباؤ کم ہو اور یہاں کے انسانوں کی زندگی میں ترقی کا سفر شروع ہو تو ان سب افغانوں کو یہاں سے بے دخل کرنا ہوگا ۔ بدقسمتی دیکھیں کہ لاکھوں افغان شہریوں نے پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنائے ہوئے ہیں جس میں نادرا کے اہلکار اور شہروں میں موجود دلال ان کے لیے سہولت کاری کرتے ہیں ۔یہ لوگ نامعلوم نہیں ہیں ہر جگہ ایسے لوگ ہیں جن کا یہ کاروبار ہے کہ وہ افغان شہریوں کو پاکستانی شاختی دستاویز دینے اور دلانے میں مصروف ہیں ، حالیہ دنوں میں ہزاروں افغان پاکستانی پاسپورٹوں پر مختلف ممالک جارہے ہیں ۔کیا حکومت اپنے ائیر پورٹس پر ان کو روک نہیں سکتی مگر یہاں کا نظام اتنا خراب ہوگیا ہے کہ اس کو ٹھیک کرنے میں شاید بہت وقت لگے گا ۔لیکن اس نظام میں موجود وہ لوگ جو ان کو سہولت فراہم کررہے ہیں ان کے خلاف کیوں کوئی کارروائی نہیں ہورہی بلکہ ان کی تو چاندنی ہوگئی ہے پہلے وہ یہ کام بہت کم پیسوں میں کرتے تھے اب تو وہ منہ مانگی قیمت وصول کررہے ہیں ۔ ان افغانیوں کی وجہ سے بیرون ملک پاکستان کی جو بدنامی ہوتی ہے اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔اس کام میں جو لوگ شریک ہیں جب تک ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتایہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ خیبر پختونخو ا کی آبادی پر افغان شہریوںکا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ یہاں کے ہسپتال اور سڑکیں اس کی گواہی دیتی ہیں ۔اگر یہ مہاجرین ہیں تو اقوام متحدہ کے قوانین کے حساب سے ان کو مخصوص کیمپوں میں ہونا چاہئے تھا جس کا انتظام یو این ایچ سی ار نے کرنا تھا مگر عملاً ایسا نہیںہوا اور یہ سب لوگ کیمپوں کی جگہ آبادیوں میں گھس آئے اور جو ان کے جی میں آیا کرنے لگے ان کا کوئی ڈیٹا بیس ہماری حکومت کے پاس نہیں ہے اس لیے وہ باآسانی جرم کرتے ہیں اور گرفت میں نہیں آتے ۔ان کو یہاں سے نکال کر دیکھیں جرائم کی شرح پچاس فیصد سے زیادہ کم ہوجائے گی ۔ ان کی وجہ سے پاکستان منشیات کی سب سے بڑی منڈی بن گیا ہے اس سے ہمارے اپنے شہری بھی متاثر ہورہے ہیں اور دنیا بھر میں ہماری شہرت بھی خراب ہورہی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم والے پیسے سے ملک میں جرائم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ان کے جانے سے اس مصیبت سے بھی جان چھڑائی جاسکتی ہے ۔ ہماری حالیہ مردم شماری کے بعد ہم آسانی کے ساتھ اپنے وسائل کی تقسیم کرسکتے ہیں اور مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں لیکن لاکھوں افغان شہریوں کی وجہ سے عملاً ایسا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ ہمارے ہسپتالوں ،سکولوں ، مدرسوں ، بستیوں ، بازاروں ، بسوں ، ٹرینوں ، اور زراعت پر ضرورت سے زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے ۔پھر ان افغان شہریوں کی وجہ سے کاروبار رجسٹرڈ نہیں ہوپارہے یوں حکومت کی آمدن گھٹ رہی ہے جس کی وجہ سے خدمت کے صلے میں اجرت کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے اور اس سے عام آدمی کی زندگی روز بروز بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے ۔ لیکن ہمارے کچھ عاقبت نااندیش لوگ اور خصوصاً سیاست دان جن کی اکثریت ان کاموں سے وابستہ ہے جن کو ہم غیر قانونی کہتے ہیں وہ اس اچھے عمل کی مخالفت کرنے پر اُتر آئے ہیں ۔ ان کی دکان ان افغانیوں کی وجہ سے چلتی ہے ان کو اس سے کیا کہ ہسپتال میں ہمارے مریض بستر نہ ہونے کی وجہ سے فرش پر پڑے ہوں ۔ حکومت کو تنخواہیں دینے کے لیے ہمیشہ قرض لینا پڑے ۔ بس میں سفر کرنے کے لیے جگہ نہ ملے ۔ان کو تو بس اپنے مفاد سے غرض ہے ۔ اس مفاد پر ست ٹولے کو بھی پاکستان کے قوانین کے دائرے میں لانا چاہئے اور دیگر ممالک کی طرح ملک کے مفاد کے خلاف بیان بازی اور اقدامات پر گرفتار کرنا چائیے تاکہ ان کو معلوم ہو کہ اس ملک میں بھی ایک قانون موجود ہے ۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات