انتخابات بارے شکوک و شبہات کی فضا

عام انتخابات کی شفافیت سے متعلق صدر عارف علوی کے حالیہ بیانات پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے شدید رد عمل آیا ہے اور ترجمان الیکشن کمیشن نے صدرمملکت کے نام و عہدہ کا ذکر کئے بغیر کہا ہے کہ ایک اعلیٰ عہدیدار کی طرف سے انتخابات کی شفافیت مشکوک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اعلیٰ عہدیدار کا یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن پرعزم ہے کہ عام انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے۔ ای سی پی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کے صاف اور شفاف ہونے کو یقینی بنایا جائے گا۔دریں اثناء نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ صدر مملکت کے بیانات ان کے آئینی کردار سے متصادم نظر آ رہے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ پوری قوم کی خواہش ہے کہ صدر مملکت عارف علوی وفاق کی علامت کے طور اپنے فرائض سر انجام دیں اور ایسا تاثر نہ دیں جس سے لوگ انہیں ایک جماعت کے ترجمان کے طور پر دیکھیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بدقسمتی سے جیسے جیسے ہم انتخابات کے قریب جا رہے ہیں صدر مملکت کے بیانات ان کے آئینی کردار سے متصادم نظر آ رہے ہیں۔اس بارے دو رائے نہیں کہ اب تک جاری صورتحال کے تناظر میں ملک میں جملہ سیاسی جماعتوں کویکساں ہموار سیاسی میدان اور مقابلے کے مواقع تودرکنار ایک سیاسی جماعت کی راہ میں روڑے اٹکانے کا عمل جاری ہے مختلف گرفتاریوں کے حوالے سے وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان گرفتاریوں کی وجہ سے وہ مقدمات اور الزامات ہیں جن کا تذکرہ ہے یاپھر یہ سیاسی گرفتاریاں ہیں لیکن پاکستان کی سیاست اور انتخابات کے دنوں میں یہ انہونی نہیں بلکہ 2018ء کے انتخابات میں بھی یہی منظر نامہ بنایاگیا تھا صرف یہی نہیں بلکہ پنجاب میں واحد اکثریتی پارٹی کوحکومت سازی کا موقع ہی نہ دیاگیا نیز وفاق میں بھی جس طرح حکومت قائم کی گئی اس پرپہلے ہی اجلاس میں سلیکٹڈ کی جو پھبتی کسی گئی دم رخصت اس تاثر کاازالہ نہ ہوسکا گزشتہ انتخابات کی محبوب جماعت آج مغضوب اور کل کی مغضوب جماعت آج محبوب بن کرجوچاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے کی مصداق منتظر اقتدار نظر آتی ہے اس ساری صورتحال کے تناظر میں صدرمملکت کے بیان کو رد تو نہیں کیا جاسکتا لیکن بطور صدرمملکت ایوان صدر میں بیٹھ کرانکا صرف بیان جاری کرنا مناسب نہیں بلکہ اپنے عہدے کے وقار کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے محض اظہار خیال کی بجائے ان کوعملی طور پر اس سارے منظرنامے کو دہرانے کی غلطی کو روکنے میں کردار ادا کرنے کی ضرورت تھی ممکن ہے ایسا کرتے ہوئے ایوان صدر کے پربھیگنے کا خطرہ ہو اور کچھ کہے بنارہا بھی نہ جا سکتا ہو لہٰذا صدرمملکت اس بارے اظہارخیال پر مجبور ہوئے ہوں لیکن بہرحال ایسا ان کے عہدے کے وقارکاتقاضا نہ تھا ان کے اس بیان سے انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ اور مجموعی انتخابی عمل پراس کے اثرات سے بچائو ممکن نہیں صدر کے پنڈورابکس کھولنے کا جوبھی مقصد ہو ان کا تازہ بیان ماضی میں ان کے ایک سیاسی جماعت کے وفادار کارکن کے طور پر کردار کا دوبارہ سامنے آنے کے مترادف ہے ۔ بہتر ہوتا کہ مدت پوری ہونے پر وہ ایوان صدر چھوڑ دیتے اس کے بعد وہ جوبھی اظہار خیال کرتے اسے ان کے ضمیر کی آواز گردانا جاتا مگر ایوان صدر میں بیٹھ کر اس طرح کے خیالات کا اظہار جس سے ا بہام پیدا ہو شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہو ہر گز مناسب امر نہ تھا جہاں تک ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور انتخابی ماحول کا تعلق ہے حسب سابق ایک اور بڑی وسنگین غلطی ہونے کے خدشات ابھر رہے ہیں جس میں عوام کی اکثریت کی رائے سے حکومت سازی کی بجائے کسی انتظام کاری کے شبہات کوتقویت مل رہی ہے ہمارے ملک کی سیاست کا یہی وہ المیہ چلا آرہا ہے جسے باربار کی خرابی کے باوجود درست کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی ہے یہ غلطی جب تک دہرائی جاتی رہے گی تب تک ملک میں ایسے شفاف اور قابل قبول انتخابات نہیں ہوسکتے جس پرجملہ سیاسی جماعتوں کا اعتماد اور الیکشن لڑنے والی جماعتیں اپنی شکست کوعوام کا فیصلہ قرار دے کر اسے تسلیم کرنے پرآمادہ ہوں او جب بھی حکومت آئے اسے عوام کا اعتماد حاصل ہو ۔ ارباب حل وعقد کو اب تو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے اور سیاسی جماعتوں کو بھی کسی کندھے کا سہارا لے کر کٹھ پتلی حکومت بنانے اور بے اختیار اقتدار کی بجائے حقیقی جمہوری عمل کوترجیح دینی چاہئے تاکہ ملک میں حقیقی معنوں میں عوامی چنیدہ حکومت کا قیام عمل میں آئے جواعتماد کے ساتھ عوام کے مسائل کے حل کی سعی کرے اور حزب اختلاف بھی جمہوری عمل پرآمادہ ہو جب تک حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار نہیں ہو گی ان انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار نہیں ہو گی ان انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت بھی نہ تو عوامی کہلائی جا سکے گی اور نہ ہی مقتدروبااختیار ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے بلاتاخیراقدامات کی ضرورت