کیا علی گڑھ ہری گڑھ بن جائے گا؟

بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے جنونی ہمنوا بھارت کو ایک ہندوراشٹریہ بنانے کا تہیہ کرچکے ہیں ۔ اس بنیاد پر وہ بھارت کو قدیم ہندو تہذیب سے جوڑنے کی مہم چلا رہے ہیں اور اس مہم میں وہ بھارت کے صدیوں پر محیط اس ماضی کو مکمل طور حذف کررہے ہیں جس میں یہ خطے مسلمان حکمرانوں کے زیر نگیں اور اسلامی تہذیب کا مرکز رہا ۔حقیقت میں یہ حقائق سے نظریں چرانے کی مشق فضول ہے کیونکہ اس سے تاریخ کا دھارا بدل نہیں سکتا ۔مسلمان حکمرانوں کو ہندوستان کی تاریخ سے حذف کیا جائے تو باقی دیوی دیوتائوں کے قصے کہانیاں اور افسانے ہی رہ جاتے ہیں یا ان کہانیوں سے وابستہ مندر۔یہ مسلمان تھے جنہوں نے ہندوستان کو تہذیب اقدار اور فن تعمیر اور طرز بودوباش سے آشنا کیا اور اس تہذیب کو تنوع عطا کیا ۔اب بھارت اس ماضی کو چھوڑ کر دوبارہ قصے کہانیوں تک سمٹنا چاہتا ہے گویاکہ اس خطے کے تہذیبی ارتقا کو ریورس گئر لگانا چاہتا ہے ۔یہ مہم صرف بھارت تک محدود نہیں بلکہ کشمیر جیسے مسلم اکثریتی علاقے کی تہذیب اور ثقافت کو بھی صدیوں پرانے ہندو دیوتاوں کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے ۔کشمیر کی اسلامی شناخت بھی اسی سخت گیر ہندو مائنڈ سیٹ کی نظروں میں کھٹک رہی ہے ۔امرناتھ یاترا جیسی مذہبی رسم کو فکری اور عملی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور بھارت بھر سے ہر سال لاکھوں ہندوئوں کو ڈھو کر لانا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کی اسلامی شناخت انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے ۔مسلمان حکمرانوں کو جس طرح ولن کے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے اس کی عکاسی مولانا شبلی نعمانی نے برسوں پہلے یوں کی تھی
تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا
کہ عالمگیر ہند وکش تھا ظالم تھا جفا جوتھا
کشمیر میں بھی ایسی لاتعداد علامتیں ہیں جن پر ہندو انتہا پسند اپنا حق جتلاتے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ مسلمان سلاطین کے دور میں ہندووں کی ان علامتوں کو بدلا گیا تھا ۔یہ محض توسیع پسندانہ اور بالادستی کی ذہنیت کا شاخسانہ ہے اور یہ سوچ آگے چل کر نازی ازم کے رویے اور اقدامات کو جنم دیتی ہے جس سے سانحات جنم لیتے ہیں ۔عالمی طاقتیں اس پہلو پر پوری طرح توجہ نہیں دے رہیں صرف جینوسائڈ واچ نے ایک الرٹ جاری کرکے دنیا کو چونکا دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت جس ذہنیت کا شکار ہورہا ہے اس کا منطقی نتیجہ مسلمانوں کی نسل کشی کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔کیونکہ پہلے ذہنوں میں نفرت کا ایک لاوہ پکتا ہے جو آگے چل کر کسی دھماکے سے پھٹ کر سب کچھ تہس نہس کر ڈالتا ہے۔بھارت کے شہر علی گڑھ میں برسراقتدار بی جے پی کی حمایت والے میونسپل بورڈ نے علی گڑھ کا نام تبدیل کر کے ہری نگر کرنے کی ایک قرارداد منظور کی ہے۔ یہ قرار داد اب حتمی منظوری کے لیے ریاستی حکومت کے پاس بھیبجی جا رہی ہے۔ ریاستی حکومت اس سے پہلے کئی ایسے شہروں کے نام بدل چکی ہے جو مسلمانوں کے نام سے منسوب تھے۔قرارداد کی بورڈ سے منظوری کے بعد حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے میئر پرشانت سنگھل نے بتایا کہ شہر کا نام بدل کر ہری گڑھ کرنے کی تجویز بورڈ کے ایک بی جے پی رکن نے پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔انھوں نے کہا کہ علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کرنے کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جا رہا تھا۔ ہماری جو پرانی تہذیب و ثقافت ہے، ہماری جو ہندو دھرم کی روایت ہے، اسی روایت کو آگے بڑھانے کے لیے نام بدلنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی یہ شہر ہری گڑھ کے نام سے جانا جائے گا۔ یاد رہے کہ ہری ہندوں کے دیوتا بھگوان کرشن کا ایک نام ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق بی جے پی کے ایک رہنما نیرج شرما نے علی گڑھ کا نام بدل کر ہری گڑھ کرنے کے لیے ایک عرصے سے مہم چلا رکھی تھی۔انھوں نے نام بدلنے کی قرارداد منظور ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہری ایک تاریخی نام ہے۔ یہ نام یہاں کی تہذیب و تمدن اور ہندو روایات سے وابستہ ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 1920 میں قائم ہوئی کیا اس سے پہلے یہ شہر نہیں تھا؟ اس سے پہلے ہری گڑھ اپنی تہذیبی وراثت پر کھڑا تھا۔ تو اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ اگر ہری کے بچوں کو ہری گڑھ نہیں ملے گا تو کیا سعودی عرب کو ملے گانیرج شرما: اگر ہری کے بچوں کو ہری گڑھ نہیں ملے گا تو کیا سعودی عرب کے بچوں کو ملے گا، قزاقستان کو ملے گا، پاکستان کو ملے گا
یہ مذہبی جذبات بھڑکانے کی سازش ہے شہر کے ایک نوجوان حیدر خان میونسپل بورڈ کی اس قرارداد سے خوش نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میں تو نہیں چاہتا کہ اس شہر کا نام ہری گڑھ ہو۔ بہتر ہو گا کہ آپ یہ سوال بی جے پی والوں سے پوچھیں کہ یہ شہر تو جب سے بسا ہے تب سے اس کا نام علی گڑھ ہے۔ اب نئی نئی باتیں ہو رہی ہیں کہ پہلے یہ نام تھا، وہ نام تھا۔ اگر نام بدلنے سے مسائل حل ہوتے ہیں تو کر دیجیے۔ کہا جاتا تھا کہ سابق وزیر اعلی اکھیلیش یادو اور مایاوتی نے نام بدلے ہیں تو کیا موجودہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی انھیں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں؟علی گڑھ میونسپل بورڈ میں اپوزیشن سماج وادی پارٹی کے ایک رکن مشرف حسین محضر کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے ارکان نے اپوزیشن کی غیر موجودگی میں دھوکے سے اس قرار داد کو منظور کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ بی جے پی کی جبر کی پالیسی کا حصہ ہے، وہ گذشتہ 15 برس سے علی گڑھ کا نام بدلنی کی کوشش کر رہے تھے۔ جب تک ہماری پارٹی میونسپل بورڈ میں موجود ہے تب تک علی گڑھ کا نام علی گڑھ ہی رہے گا۔ یہ علی گڑھ تھا، ہے اور رہے گا۔شہر کے ایک بزرگ شہری اور سابق رکن بلدیہ مظفر سعید نے نام بدلنے کی قرارداد کو ایک سازش قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ ہمارے روز مرہ کے مسائل میں پانی کی عدم فراہمی، بجلی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، نوجوانوں میں کثرت سے نشے کی لت جیسے مسائل شامل ہیں۔ کیا علی گڑھ کو ہری گڑھ کر دینے سے یہ مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا اس سے کسی کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟ یہ 2024 کے انتخابات سے پہلے مذہبی جذبات بھڑکانے کی ایک سازش ہے۔علی گڑھ کا نام بدلنے کی قرارداد اتر پردیش کی بی جے پی حکومت کو بھیج دی گئی ہے۔ اگر اس نے اس قرارداد کو حتمی طور پر منظور کر لیا تو علی گڑھ کا نام بدل جائے گا۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اس سے پہلے الہ آباد کا نام پریاگ راج، مغل سرائے کا نام دین دیال اپادھیائے نگر اور فیض آباد کا نام بدل کر ایودھیا کر چکے ہیں۔کئی اور شہروں اور قصبوں کے نام بدلنے کی تجویز ہے۔ مسلم ناموں کو بدلنے کا سلسلہ دوسری کئی ریاستوں میں چل رہا ہے۔ ماضی قریب میں ریاست ہریانہ میں چند دیہات کے نام بھی بدل دیے گئے ہیں۔ مہاراشٹر میں اورنگزیب کے نام سے منسوب اورنگ آباد کا نام چھترپتی سمبھاجی اور عثمان آباد کا نام دھارا شیو رکھ دیا گیا ہے۔یہاں دلی میں اورنگزیب کے نام سے منسوب ایک سڑک کا نام بدل دیا گیا ہے۔ نام بدلنے کے پیچھے بے جے پی کی دلیل یہ ہے کہ شہروں اور قصبوں اور اداروں کے نام مسلم حملہ آوروں کے نام پر نہیں رکھے جا سکتے۔ان کے نظریات کے مطابق انڈیا میں ماضی کے سبھی مسلم حکمراں غیر ملکی حملہ آور تھے اور ان کے نام پر شہروں اور قصبوں کا نام ہونا غلامی کی علامت ہے۔مغربی اتر پردیش کا شہرعلی گڑھ اپنے مضبوط تالوں کی صنعت اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے جانا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تالوں کی صنعت تو زوال پذیر ہو گئی لیکن مسلم یونیورسٹی ترقی کرتی گئی۔ یہ ایک سینٹرل یونیورسٹی ہے یعنی اس کا فنڈ بھارتی حکومت کے بجٹ سے جاری ہوتا ہے۔ اس یونیورسٹی کا نام علی گڑھ شہر کے نام پر رکھا گیا ہے علی گڑھ وہ تاریخی درسگاہ ہے جس نے قیام پاکستان میں بہت مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔اسی درسگاہ کے نامور طلبہ نے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے شانہ بشانہ تاریخی کردارادا کیا اور قائد اعظم نے اس درسگاہ کا دورہ بھی کیا اور اس دورے کی یادگار تصویریں آج بھی علی گڑھ کے دورودیوار پر آویزاں ہیں ۔علی گڑھ کا یہ تاریخی کردار بھی ہندو جنونیوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے کیونکہ انہیں یہ احساس ہے کہ اگر علی گڑھ کے طلبہ نے قائد اعظم کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو شاید پاکستان کا حصول ممکن ہی نہ ہوتا۔اس لئے انتہا پسند ہندو علی گڑھ کے کردار کو کبھی کھلے لفظوں میں تو کبھی دبے انداز میں ہدف تنقید بناتے ہیں ۔یہ تو ایک اضافی معاملہ ہے اصل مسئلہ ہندوستان کا تنوع ختم کرکے اسے ایک کٹر ہندو ریاست بنانے کی سوچ ہے اور اب یہ سوچ بڑی حد تک عمل میں ڈھل چکی ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی