انصاف کا معیار

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ احتساب سے چیف جسٹس سمیت کوئی مبرا نہیں ہے میں اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتا ہوں 31سالوں میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا کہ جس کے بارے میں یہ سوچ ہو کہ اللہ کے سامنے جواب نہیں دے سکوں گاملک کی عدالتیں انصاف کرنے لگ جائیں عوام کو نہ صرف سہل اور فوری انصاف ملے تو یہ ملک میں ایک مثبت تبدیلی اور احتساب کا حقیقی آغاز ہوگا لیکن بدقسمتی سے ملک میں برعکس عمل جاری ہے یہ درست ہے کہ تمام تر مساعی کے باوجود نظام اور ماحول وہ بڑی رکاوٹ ہے جوعدلیہ میں بیٹھے معزز منصفین کے راہ کی رکاوٹ بنتی ہے مشاہیر کے مقدمات تو بوقت ضرورت وہ طویل التواء کاشکار بھی ہوتے ہیں اور منشاء ہوتو ریلیف ملنا شروع ہوتا ہے اگر عدلیہ کو عوام میں کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنا ہے توسیاسی اور مشہور مقدمات کے علاوہ عوامی مقدمات کوبھی بڑی عدالتوں میں جگہ دینا ہوگی جس طرح پشاور ہائیکورٹ کے معزز چیف جسٹس اپنی ساری سروس میں انصاف کی فراہمی سے مطمئن ہیں اور روز آخرت جواب دینے کی بات کی ہے اسی طرح اگر ماتحت عدلیہ سے لے کر اعلیٰ عدالتوں کے تمام جج صاحبان بھی اپنے فیصلوں کی آخرت میں لگنے والی عدالت میں سامنا کرنے کا خیا ل دل میں رکھ کر جائزہ لینے اور اطمینان کااظہار کرنے کے قابل ہوں تبھی عوام کو انصاف ملنے کا یقین آجائے گا۔

مزید پڑھیں:  میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں