افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی

سیکورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا گیاہے کہ افغانستان سے23دہشت گرد تنظیمیں53ممالک میں دہشت گردی پھیلاتی ہیں۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق افغانستان سے دہشت گرد تنظیمیں پاکستان، امریکا اور چین کو نشانہ بناتی ہیں اور ان نشانہ بننے والے ملکوں میں پاکستان سر فہرست ہے۔پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والی تنظیموں میں ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار سرِ فہرست ہیں۔ بلوچ دہشت گرد تنظیمیں بھی پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والی تنظیموں میں سرِ فہرست ہیںنیز افغانستان خطے میں دہشت گرد تنظیموں کی باقاعدہ مالی معاونت کر رہا ہے، پاکستان میں گزشتہ سال دہشت گردی میں ٹی ٹی پی اور افغان حمایت کا مرکزی کردار رہا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق آپریشن ضربِ عضب اور ردّالفساد سے ٹی ٹی پی تقریباً ختم ہو گئی تھی تاہم افغان طالبان کے اقتدار میں آنے پر ٹی ٹی پی دوبارہ متحرک ہو گئی ہے۔پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں بھی افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ استعمال ہوا تھا اور پچھلے2برس میں پاکستان میں ہونے والے تمام خودکش حملہ آور بھی افغان تھے۔خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ پاکستان کے بارہا مطالبے پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ، اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بھی افغان طالبان کے دور میں خطے میں عدم استحکام بڑھنے کاسبب بتایا جاچکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دوحہ معاہدے میں دہشت گرد گروپ توڑنے اور دیگر ممالک کے لیے سلامتی کا خطرہ نہ بننے کے افغان طالبان کے وعدے پورے نہیں ہوئے، افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد خطے میں سکیورٹی کی صورتِ حال غیر یقینی ہو گئی ہے۔ امریکی نمائندہ برائے امن پروگرام کے مطابق ٹی ٹی پی افغانستان میں دہشت گردوں کی تربیت اور فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے متحرک ہے۔اس رپورٹ کے حوالے سے ابھی تک طالبان عبوری حکومت کی جانب سے کسی ردعمل کا اظہار نہیںکیاگیا ہے تاہم قبل ازیں اس طرح کے امکانات کوطالبان ترجمان کی طرف سے رد کرنے اور پاکستان کو اپنے داخلی امن و استحکام کوبرقرار رکھنے میں ناکام قرار دے کر کابل کومطعون نہ کرنے کے مشورے دیئے جاتے رہے ۔ تازہ ترین رپورٹ افغانستان کی حکومت اور ریاست کے خلاف ایک عالمی چارج شیٹ کے مترادف ہے جس میں صرف پاکستان ہی کے حوالے سے نہیں بلکہ دیگر ممالک جس میں چین کے خلاف بھی افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے کا کہا گیا ہے علاوہ ازیں بھی کئی دوردر اورقریب و جوار کے ممالک کے نام بھی لیاگیا ہے جہاں دہشت گردی پرآمادہ عناصرافغانستان کی سرزمین پر موجود بتایا گیا ہے حالانکہ چین نے حال ہی میں افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی ابتداء ضرور کی ہے بہرحال ان کی طرف سے بھی یہ مطالبہ ضرور دہرایاگیا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود چین کے مخالفین کی سرگرمیوں کا نوٹس لے یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پرآئی ہے جب امریکی حکام کے پاکستان کے دوروں میں تیزی آگئی ہے اور اس دوران افغانستان میں ٹی ٹی پی کے کردار پر خاص طور پر گفتگو ہوئی ہے ۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے اس بارے کیاموقف اختیار کیا جاتا ہے اس سے قطع نظر یہ رپورٹ اتنی جامع ہے کہ اسے مسترد کرنے کے لئے افغانستان کے پاس متذکرہ علاقوں میں سرگرم عناصر کی سرگرمیوں اور اس حوالے سے رپورٹ کی حقیقت جاننے کے لئے عالمی مبصرین کی ٹیم کو دورے کی دعوت دینے کی ضرورت ہو گی تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو بصورت دیگر اسے اعتراف گردانا جائے گا جس پرعالمی برادری کی طرف سے افغانستان کی حکومت پر ہر قسم کا دبائو آسکتا ہے ۔ پاکستان کے تناظر میں تواس رپورٹ کے مندرجات کسی طور پر بھی صرف نظر نہیںکئے جا سکتے باقاعدہ اعداد و شمار کی روشنی میں جو صورتحال بتائی گئی ہے اور پاکستان میں ان عناصر کے باعث امن و امان کی جو صورتحال ہے وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں نیز پاکستان کے پاس اس حوالے سے دستاویزات اور شواہد کابھی کابل سے تبادلہ کیا جا چکا ہے سینئر سول وفوجی حکام بطور خاص کابل جا کر اس حوالے سے تفصیلات دینے کے بعد اپنے تحفظات و خدشات کے ازالے کے لئے افغان عبوری حکومت سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی اپیل کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود سنجیدگی ومتانت کے ساتھ اقدامات کا ہنوز انتظارہے افغانستان میں محولہ عناصر کی عملی موجودگی کا ثبوت وہاں پر وقتاً فوقتاً مارے جانے والے ٹی ٹی پی کی اہم شخصیات کی شناخت سامنے آنے پربھی ہوتی ہے یہ تمام امور اس امر کے ثابت ہونے کے لئے کافی ہیں کہ افغانستان ہمسایہ ممالک کی سرزمین کو غیر محفوظ بنانے کے لئے اپنی سرزمین کے استعمال کی روک تھام میں نہ صرف ناکامی کا شکار ہے بلکہ وہ اس حوالے سے اقدامات کی اہمیت کے ادراک تک کو تیار نہیں جاری حالات و واقعات سے ان خدشات کا اظہار غلط نہ ہو گا کہ افغان عبوری حکومت کی پالیسیوں کے باعث نہ صرف خود ان کے لئے مشکلات کھڑی ہونے کے خطرات ہیں بلکہ یہ پاکستان سمیت پورے خطے کو بھی نئے امتحان سے دو چار کر سکتے ہیں آمدہ دنوں میں خطے میں صورتحال میں کشیدگی اور پاک افغان تعلقات میں بگاڑ کے خدشات میں اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے جس کے حوالے سے ہر دو ممالک کو ایسی پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہے کہ ان کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہوں اور نہ ہی وہ کسی کے آلہ کار بنیں۔

مزید پڑھیں:  آبی وسائل کا مؤثر استعمال