آٹے کی گرانی بحران کی ابتدائ

پشاور اور صوبے کے دوسرے بڑے شہروں میں آٹا کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے مارکیٹ میں80کلو آٹے کی بوری کے نرخ میں5سو روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ شہر کی مختلف آٹا مارکیٹوں میں ناجائز منافع خوروں نے آٹے کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی ہے۔ اشرف روڈ کے آٹا ڈیلرز کے مطابق فلور ملز نے ریٹ بڑھا دئیے ہیں اور اس کے ساتھ مارکیٹ میں بھی آٹا کی قیمت بڑھ گئی ہے واضح رہے کہ چند ماہ تک آٹا کی قیمتوں میں استحکام اور نرخ کنٹرول میں رہے ہیں تاہم اب آٹا کی قیمتوں میں دوبارہ سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔دریں اثناء پشاور میں آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کے ساتھ ہی نانبائیوں نے بھی روٹی کی قیمت میں اضافہ کے لئے کمر کس لی ہے۔پشاور کے نانبائیوں نے سرکاری نرخ پر روٹی کی فروخت نہ کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے صرف آٹا کی قیمتوں کوہی پر نہیں لگے مہنگائی میں بھی کمی نہیں آسکی البتہ جس شرح سے آٹا کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے وہ معمول کے اضافے سے کہیں زیادہ اور بلاوجہ ہے جسے منصوبہ بندی کے ساتھ مصنوعی اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے جس کا کوئی جواز نہیں امرواقع یہ ہے کہکچھ عرصہ توقف کے بعدایک مرتبہ پھر آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے 80کلو آٹا کی بوری کی قیمت میں مزیدپانچ سو روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ قبل ازیں گزشتہ ماہ کے وسط میں ہی آٹا کی قیمت میں 80 کلو گرام بوری کی قیمت میں بھی 3سوروپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔جس کے بعد گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مجموعی طور پر آٹا کی بوری کے نرخوں میں اس وقت تک 7سو روپے تک اضافہ ہوا تھا اب موجودہ اضافہ ملا کر بارہ سو روپے فی بوری اضافہ کر دیاگیاقبل ازیں خیبر پختونخوا کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ آٹا کی افغانستان سمگلنگ کو قرار دیا جاتا رہا ہے جس پر حکام کے دعوئوں کے مطابق اب قابو پالیاگیا ہے لیکن مقامی مارکیٹ میں ایک مرتبہ پھرآٹے کی قیمتوں کو پرلگ گئے ہیں جس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ کچھ توقف کے بعد شاید آٹا سمگلنگ کا منظم دھندہ پھرسے شروع کردیا گیا ہو جس کا جائزہ لے کرروک تھام پرتوجہ کی ضرورت ہے اس امر کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے کہ آٹا کی قیمتوں میں اچانک اضافہ کیوں ہونے لگا ہے اگر ذخیرہ اندوزوں نے اس کے لئے ایک مرتبہ پھر پرانا طریقہ اختیار کیا ہے تو ان کے ذخیروں پر چھاپے مار کر آٹا برآمد کرکے مقررہ نرخوں پر فروخت کیا جائے دیگر وجوہات اور اسباب کا بھی جائزہ لیا جائے اور آٹا کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لئے تمام ممکنہ ا قدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کی جانب سے حسب سابق ملی بھگت اور تساہل سے کام لیاگیاتو صوبے میں آٹا کی پہلے سے زیادہ قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا جو عوام کے لئے سخت مشکلات کا باعث اورناقابل برداشت ہوگا۔قبل اس کے کہ اضافی نرخ مارکیٹ ریٹ قرار پا کر مستقل ہو حکام کو اس کی روک تھام اور قیمتوں کو معمول پرلانے کی سعی کرنی چاہئے۔آٹاڈیلروں کی جانب سے جس موقف کا اظہار کیاجا رہا ہے ممکن ہے اس میں وزن ہو لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں دوسری مرتبہ آٹاکی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت کیوںپیش آئی جن وجوہات کا تذکرہ ہو رہا ہے کیا یہ وجوہات ماہانہ اور پندرھواڑے کی بنیاد پر پیش آتے ہیں ایسے میںایسے آٹا ڈیلروں کی ایک چال قرار دی جا سکتی ہے نیز اگراسے تسلیم بھی کیا جائے تو جوبھی وجوہات ہوںاس کے نتیجے میں ایک ماہ کے دوران آٹاکی قیمتوں میں بارہ سو روپے فی اسی کلو گرام اضافہ غیر حقیقت پسندانہ ہے اکثرآٹا ڈیلراس طرح کی افواہیں پھیلا کر مارکیٹ میں ایک جانب قلت کا خوف پیدا کرکے اور مہنگا ہونے کا تاثردے کر فروخت میںاضافہ کرتے ہیں اوردوسری جانب مارکیٹ سے آٹا گوداموں میںمنتقل کرکے ذخیرہ کرکے مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ بیک وقت عوام کودونوں ہاتھوں سے لوٹا جا سکے جس کا تدارک انتظامیہ کو مارکیٹ میں آٹا کی وافر مقدار میں موجودگی یقینی بنا کراور گوداموں پرچھاپے مارکر ذخیرہ کئے گئے آٹا کومارکیٹ میں لا کر کرنا چاہئے۔ آٹا ڈیلروں کوکھلی چھٹی ملنا اور ہر بار ان سے عدم تعرض کا انتظامیہ اور محکمہ خوراک کا رویہ اور ملی بھگت اس طرح کے حالات کا باعث بنتا ہے ایسے میں نانبائیوں کوبھی روٹی کی قیمت میںاضافے کا بہانہ میسر آتا ہے اب بھی جس وزن کی روٹی فروخت ہو رہی ہے وہ مقررہ وزن سے کہیں کم اور مہنگا ہے اب اس میںمزید اضافہ کی تیاری جارہی ہے اس ضمن میں انتظامیہ ہر باردبائو میں آتی ہے اور نانبائی جیت جاتے ہیں جب تک حکومت سخت اقدامات سے صورتحال کوقابو میں لانے میں تساہل کا مظاہرہ کرتی رہے گی آٹا کی قیمتوں میں اضافہ کم روٹی کی مہنگے داموں فروخت کا سلسلہ بھی جاری رہے گا اور متاثرہ عوام لاحاصل فریاد کرتے رہ جائیں گے ہے کوئی نوٹس لینے والا؟۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال