خلق خدا کی گھات میں ‘ رند وفقیر ومیر وپیر

معلوم نہیں اس صورتحال پربندربانٹ کاکلیہ موزوں ہوتا ہے یاپھراندھا بانٹے ریوڑیاں والا یہ الگ بات ہے کہ دونوںمیںکچھ نہ کچھ قدرمشترک تو ہے اورناک کوسیدھے سامنے سے پکڑا جائے یا پھر ہاتھ گردن کے پیچھے سے گھما کر پکڑنے کی کوشش کی جائے مقصد توایک ہی ہے یعنی ناک پکڑنا ‘ اور یہ معاملہ بہت پرانا تونہیں مگرنیا بھی نہیں ‘بلکہ دیکھا جائے تو قیام پاکستان کے بعد جسد سیاست میں یہ قباحتیں موجود نہیں تھیں ‘ ہوتیں تویقینا سب سے پہلے بانیان پاکستان یہی کچھ کرتے یااس دور کے دوسرے سیاسی رہنماء اسی راستے کوچنتے ‘زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح تحریک پاکستان کی جدوجہد میں بابائے قوم کے ہم قدم رہیں بلکہ ان کے ساتھ سائے کی طرح شامل تھیں اوراصولی طور پر قائد اعظم کی رحلت کے بعد انہیں(آج کی سیاسی روایات کے مطابق) ملکی سیاست بھرپور حصہ لے کرمسلم لیگ(اصلی) کی قیادت سنبھالنی چاہئے تھی مگر بانی پاکستان کی وفات کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور پھردوبارہ اس وقت عملی سیاست میں قدم رکھا جب ان کوملک کے چیدہ چیدہ سیاسی رہنمائوں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ایوبی آمریت سے عوام کی جان چھڑانے کے لئے میدان میں آئیں ‘ انہوں نے بھی نازک سیاسی صورتحال کو محسوس کرکے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے صف اول کے سیاستدانوں کی منت سماجت کے بعد صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کافیصلہ کیا اسی طرح ملک کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی بیوہ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے بھی اپنے شوہر کی شہادت کے بہت عرصہ بعد ملکی معاملات میں حصہ لیتے ہوئے گورنر سندھ کے طور پرخدمات انجام دیں لیکن ان کے بچوں میں سے کسی نے بھی عمومی سیاسی سرگرمیوں میں کوئی حصہ نہیں لیا نہ وہ مسلم لیگ کی سیاست کا حصہ بنے ‘ یہ باتیں اس لئے یاد آئیں کہ ان دنوں سیاست پراندھا بانٹے ریوڑیوں والا گمان غالب ہوچکا ہے’ اور مختلف جماعتوں پرموروثیت کے ”الزامات” لگائے جارہے ہیں دیکھا جائے تو اس موروثیت کی ابتداء کے ڈانڈے بھی ایوبی آمریت ہی میں پیوست دکھائی دیتے ہیں۔ایسے لاتعداد سیاسی خانوادے موجود ہیں جنہوں نے سیاست میں موروثیت کواوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے ‘ آج کل کے مشہور سیاسی خانوادوں میں جہاں ایک جانب میاں خاندان پر موروثیت کے الزام لگائے جارہے ہیں وہیں بھٹو خاندان اوراب انہی کے ناتے زرداری خاندان کے چرچے ہیں’ بھٹو مرحوم کے والد سر شاہنواز بھٹوانگریز کے دور سے سیاست میں موجود تھے اور اہم عہدوں پر متمکن رہے ‘ تاہم آج کے مروجہ سیاسی موروثیت کے حوالے سے انہوں نے اپنے برخوردار ذوالفقار علی بھٹو کو سیاست کے میدان میں نہیں اتارا بلکہ بھٹو مرحوم اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وطن واپس آنے کے بعد وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوئے اورپھر ایوب خان کی ان پر نظر پڑی تو انہیں اپنی کابینہ میں وزیرصنعت کے طور پرشامل کیا جہاں انہیں اپنی قدرتی صلاحیتوں کی بناء پر وزارت خارجہ دی گئی توان کے جوہر کھل کر سامنے آئے ‘ البتہ انہوں نے اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی باقاعدہ سیاسی تربیت کی اور انہیں اپنے ساتھ رکھتے ہوئے عالمی سیاست کے دائو پیچ سکھائے ‘ تاہم اسے آپ موجودہ موروثیت کے زمرے میں شمار نہیں کر سکتے کہ ایک تو محترمہ کا رجحان بھی سیاست کی طرف تھا دوسرے ان کی فطری صلاحیتوں کواجاگر کرکے بھٹو مرحوم نے محترمہ کوعالمی سطح پر مدبر اور سیاسی رہنما بنانے میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی بالکل اسی طرح جس طرح باچا خان کے زیر سایہ خان عبدالولی خان نے سیاسی تربیت حاصل کرکے عالمی سطح کے سیاسی مدبر کامقام حاصل کیا اور ان کے بعد اسفندیار ولی خان بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ایک سیاسی سٹالوارٹ بن کر ابھرے ‘ تاہم ان کی آنے والی نسل کو اس مقام تک پہنچنے کے لئے ابھی سیاست کے سردگرم حالات سے گزر کر کندن بننے میں کئی منازل طے کرنے ہیں یہی صورتحال محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعدان کے بیٹے بلاول زرداری کودرپیش ہے وہ بعض اوقات اپنے بیانات کے ذریعے جو مسائل اپنی موروثی جماعت کے لئے کھڑے کر دیتے ہیں ان سے جان چھڑانے کے لئے انہیں اپنے اتالیق والد یعنی آصف علی زرداری جیسے سیاسی دائو پیچ حاصل کرنے اور ان میں طاق بننے کے لئے مزید امتحانات سے گزرنا پڑے گا۔البتہ میاں خاندان کی طرح ان دونوں خانوادوں یعنی بھٹو اورباچا خان کی جماعتوں پر موروثیت کے جوالزام لگائے جاتے ہیں ‘ ان میں بہت حد تک صداقت ہے جبکہ دیگر ایسے خاندان بھی ملک میں موجود ہیں جن کے حوالے سے اوپر کی سطور میں اشارہ کیا جا چکا ہے ان پر بھی موروثیت کے الزامات غلط نہیں ہو سکتے بلکہ ان لوگوں میں ایسے بھی ہیں جس کی وضاحت شاعر اقتدار جاوید نے اپنے کلام میں بڑی خوبصورتی سے کر دی ہے کہ
شجر کی شاخ پرجیسے گھرانے بولتے ہیں
پرندے بولتے ہیں ‘ آشیانے بولتے ہیں
سداآباد رہنے ہیں ‘ ہمارے باپ دادا
مزاروں پر ہے رونق ‘ پیر خانے بولتے ہیں
ہماری سیاست موجودہ موروثیت کی شکل میں کیوں ڈھل گئی ؟ اس حوالے سے ہمیں سابق آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں جھانکنا پڑے گا ‘موصوف نے بھٹو کو اقتدار سے الگ کرکے اگرچہ 90 دن کے اندر نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر وعدے کب وفا ہوتے ہیں اپنے اقتدار کودراصل اس نے اس لئے طویل کردیاتھا کہ اسے بھٹو کا خوف دامن گیر تھا اور ولی خان نے بھی کہہ دیا تھا کہ قبر ایک اور بندے دویہ صورتحال اس کے لئے قابل نہیں تھی سو ایک جانب اس نے بھٹو سے جان چھڑانے کے لئے بالاخر راستہ ڈھونڈ ہی لیا تودوسری جانب اپنے طویل کردہ اقتدار کو ”قابل قبول” بنانے کے لئے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے جواسمبلیاں قائم کیں ان کے اراکین کو سیاسی رشوت کے طور پر ”ترقیاتی فنڈز”عطا کئے اور اسی وجہ سے بعد میں جونئے لوگ سیاست میں آئے ان کے منہ کوجیسے خون لگ گیا کیا سینیٹ ‘کیا قومی اسمبلی اور کیاصوبائی اسمبلیاں ‘ ان کے ممبران کو ضیاء الحق نے اعلیٰ مقام سے اتار کربلدیاتی نمائندے بنا کر پارلیمنٹ کی جوتوہین کی ‘ وہ آج تک جاری وساری ہے اور ہر ممبر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے کسی پیارے کو بھی ممبر بنانے میں کامیاب ہو جائے تاکہ فنڈز کے فوائد سمیٹ کرنہال ہوسکے ‘ یہ صورتحال اس قدردلکش تھی کہ جب بعد میں دوبارہ جماعتی بنیادوںپر انتخابات ہوئے توایک طرف نیم مذہبی ‘ نیم سیاسی جماعتوں نے بھی اس گنگا میں ہاتھ دھونے سے بھی آگے جا کر اشنان کرنے تک کے مواقع ڈھونڈ نکالے ‘ ایم ایم اے کے نام سے مذہبی جماعتوں کا جواکٹھ قائم ہوا ‘ اس کے رہنمائوں نے اپنے عزیزوں ‘ رشتہ داروں اورخاص طور پر خواتین رشتہ داروں کو بھی بڑے دھڑلے سے مختلف اسمبلیوں تک پہنچا کر موروثیت کی ایک نئی شکل تخلیق کی ۔اپنے ”گھر آنگن” پر نظرڈالیں توسابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی موروثیت کے حوالے سے بڑا نام کمایا ہے اور موصوف نے اپنے خاندان کے کئی خواتین و حضرات (بھائیوں ‘ بیٹوں ‘ بھتیجوں ‘ بھابیوں وغیرہ وغیرہ کوپارلیمان کے مختلف ایوانوں میں پہنچا کر ”بڑا نام” کیا ہے اگرچہ ان کے اپنے ہی گھر میں انہیں”بغاوت” کا بھی سامنا رہا ہے جب ان کے خاندان کے بعض افراد نیان کا ہاتھ چھوڑ کردوسری جماعتوں میںشمولیت اختیار کی لیکن ہماری سیاست کا یہ بھی طرہ امتیاز ہے کہ بعض اوقات (ماضی گواہ ہے) ایک ہی خاندان کے افراد مختلف جماعتوںمیںشامل رہے ہیں تاکہ کوئی بھی جماعت برسراقتدار آئے یہ اپنے خاندانی مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ اب ذرا مولانا صاحب کی سیاست کاجائزہ لیں تو ان کے بھائی ‘ بیٹے ‘سمدھی ‘ داماد بھی مختلف ایوانوں میں مفادات کی بوریاں بھرتے دکھائی دیں گے دراصل موروثیت کی سیاست میں گھٹنوں تک ڈوبے ہوئے رہنمائوں کی دور کی نظر کمزور ہونے کی وجہ سے صرف قریب کی نظر ہی سکس بائی سکس کے معیار پر پوری اترتی ہے اور وہ سیاسی ریوڑیاں اپنوں ہی کوبانٹنے کی”بدعت” کا شکار ہیں خیبرسے کراچی اور گلگت بلتستان سے گوادر تک یہی حال ہے ۔ بقول علامہ اقبال
خلق خدا کی گھات میں ‘ رندو فقیر و میر وپیر
تیرے ہاں میں ہے وہی ‘ گردش صبح وشام ابھی

مزید پڑھیں:  متاثرین تربیلہ ڈیم اورجنرل ایوب فیملی