فضائی آلودگی کا سنگین مسئلہ

خیبر پختونخوا کے دو اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور میں بھی لاہور سے فضائی آلودگی میں سرفہرست رہے ڈیرہ اسماعیل خان مسلسل دوسرے روزفضائی آلودگی کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہونے کے نتیجے میں ائر کوالٹی انڈکس 306 ریکارڈ کیا گیا جبکہ شہر پشاور میں ائر کوالٹی انڈکس285 ریکارڈ کیا گیا ہے لاہور میں ائر کوالٹی کی شرح 228 بتائی جاتی ہے۔پشاور میں مسلسل اور انتہائی غیر صحت بخش ہوا کا معیار سنگین خدشات کاباعث ہونا فطری امر ہے یہاں تک کہ پشاور اب لاہور سے بھی آلودہ شہر بن گیاہے صوبائی دارالحکومت خطرناک حالات فوری توجہ کا متقاضی ہیںجہاں کی ہوا کا معیار ایک اہم ماحولیاتی مسئلہ بن چکا ہے۔ایئر کوالٹی مانیٹر سے حاصل شدہ ڈیٹا سے مسئلے کی شدت واضح ہے۔ جو اس مسئلے کی مستقل اور بڑھتی ہوئی نوعیت کی نشاندہی کرتی ہے۔مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو پشاور کے ماحولیاتی چیلنجز مختلف ذرائع سے پیدا ہوتے ہیں، جن میں صنعتی اخراج، گاڑیوں کی آلودگی اور بائیو ماس جلانا شامل ہیں۔ لاہور، کراچی اور اب پشاور جیسے شہروں کی بڑھتی ہوئی تعدد فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں موثر پالیسیوں اور مشترکہ کوششوں کی فوری ضرورت کو واضح کرتی ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پشاور کی عدم موجودگی کی وجہ ہوا کے معیار کے مانیٹر کی کمی اور لاہور اور کراچی جیسے شہروں کے مقابلے اس کی چھوٹی آبادی ہے۔ جغرافیائی خصوصیات، بشمول آس پاس کے پہاڑوں اور وادی کی ترتیب، آلودگی کے جمع ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، خاص طور پر سردیوں کے دوران جب منتشرہوا کم موثر ہوتا ہے۔یہاں سردیاں خشک حالات اور پرسکون ہوا کی وجہ سے آلودگی کے بحران کو بڑھا دیتی ہیں۔ صنعتی اور گاڑیوں کے اخراج، بائیو ماس جلانے کے ساتھ مل کر، بنیادی محرک بن جاتی ہیں پشاور کی خراب ہوا کے معیار کی اصلاح و صفائی پر توجہ فوری اور موثر کارروائی کی متقاضی ہے پشاور کا مجوزہ70 ملین روپے کا فضائی معیار کی نگرانی کا نظام درست سمت میں ایک قدم اورامید کی ہے جس سے صوبائی دارالحکومت میں فضائی آلودگی کے اہم مسئلے سے نمٹنے میںمدد ملے گی۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی