رشتے ناطے جوڑے رکھیں!

گزشتہ کالموں میں رشتے کے حوالے سے بات ہوئی تھی جس کا کافی اچھا ردعمل آیا اسی سلسلے ہی میں ایک نشست میں کہا گیا کہ دیگر عوامل کا تو ذکرہوا مگرصاحبزادوں اور صاحبزادیوں کو آئندہ کی عائلی زندگی کے لئے تیار کرنے کے حوالے سے تشنگی رہی واقعی ایسا کم ہی ہوتا ہے والدین اپنی صاحبزادیوں کو تھوڑی بہت روایتی طور پر ”سسرال کے آداب”تو بتا دیتے ہیں شوہر کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ ”ہدایات” دی جاتی ہیں مگر من الحیث المجموع یہ گر نہیں سکھائے جاتے کہ ایسا کیا کیا جائے او رکس طرح رہا جائے کہ خود بھی خوش رہیں اور سسرالیوں کو بھی شکایت نہ ہو۔ ویسے سچ پوچھیں تو ایسا آئیڈیل ماحول اور گھرانہ ممکن ہی نہیں بلکہ اگر ایسا ہوا تو یہ انسانی فطرت کے خلاف ہوگا قدرت نے ایسے انسان پیدا ہی نہیں کئے جن کی فطرت اور مزاج میں مکمل ہم آہنگی ہو اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے حالات میں کیسے رہاجائے سیدھی بات تو یہ ہے کہ تحمل و برداشت اور بردباری کے ساتھ ایسا ممکن ہے مگر اس کی بھی ہر کسی سے توقع نہیں رکھی جا سکتی پھر یہ فارمولہ بھی بعض اوقات چل نہیں پاتا اس لئے کہ مزاج کی موسموں کی طرح نہیں بدلتے بلکہ بادلوں کی طرح آسمان پر چل پھر رہے ہوتے ہیں ۔ ان بہو بیٹوں کی خوش بختی میں کلام نہیں جنہیں ساس بھی ماں کی طرح کی مل جائے ساس بہو کے قصے افسانوی شہرت رکھتے ہیں اور ایسا غلط بھی نہیں کہ ہر گھرکی کہانی ہوتی ہے ساس بہوکی نالگی جو فطری بات بھی ہے مسائل وہاں ا ٹھ کھڑے ہوتے ہیں جہاں تجاوز کی حد عبور ہوتی ہے بے شمار قصے کہانیاں ظلم اور جان لینے کی نوبت علیحدگی وغیرہ وغیرہ معمول کے قصے ہیں اسلام دین فطرت ہے جو آدمی کو بیوی کوعلیحدہ رکھنے یا کم از کم ان کے لئے گھر کے اندر ہی کوئی چھوٹا گوشہ عافیت مہیا کرنے کا درس دیتا ہے ۔ اگر میں یہ لکھ دوں کہ سسر ساس کی خدمت بہو کی ذمہ داری نہیں احسان ہے تو شاید اس کا غلط مطلب لیا جائے مگر ہے ایسا ہی مگر دوسری جانب اس کی ترغیب اس کی مصلحت سے بھی صرف نظرممکن نہیں اس لئے کہ گھر بسانے اور خاندان کی خوشیوں کا تقاضا یہ ہے کہ بہو سسر ساس کو والدین کا درجہ دے اور سسر ساس بہو کوبیٹی کا درجہ دے کر اس نظر سے دیکھیں اور سلوک کریں۔میں ساس بڑی ظالم ہوتی ہے لکھ دوں تو یہ کوئی متاثر کن جملہ نہ ہو گا لیکن میں آپ کو ایک ایسے ساس بہو کی حقیقی کہانی ضرور سنائوں گی جومتاثر کن ہے متاثر کن بھی اس حد تک کہ ساس اور بہوالگ الگ معاشروں اور تہذیب کے تھے ابتداء میں توساس کو زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم کے مصداق بہو کی بولی کی سمجھ نہیں آتی تھی اوربہوساسو ماں کی زبان نہیں سمجھتی تھی پھر ساسو ماں تو تھوڑی بہت ہی بہو کی بولی سیکھ لی مگر بہونے کمال کر دیا کہ ساس کی زبان پر عبور حاصل کیا زندگی بھربہو اور ساس کی بنی رہی یہاں تک کہ بہو کے خلاف اپنے بیٹے کو کبھی شکایت نہیں کی بلکہ بیٹے کے تیور اگر بہو کی طرف اچھے نہ معلوم ہوتے تو بیٹے کی سرزنش کرتیںکہ وہ بیگم سے اچھا سلوک کرے آج ساس راہی ملک عدم کوسدھار چکی مگر بہو کی زبان پر کبھی ان کی زندگی میں کوئی حرف شکایت نہ آئی پس مرگ تو بروں کو بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے اس میںکمال بہو کابھی ہوگا لیکن اصل کمال ساس کا تھا جس نے بہو کوحقیقی بیٹی کا درجہ اور پیار دیا اوراپنے بیٹے کو بھی ان سے زیادتی سے باز رکھا یہ الگ بات کہ شوہر نامدار کے تیور بدل چکے ہیں لیکن بہرحال اس قدر نہیں کہ معاملات میں بگاڑ آئے میرے خیال میں یہ حقیقی اور عملی مثال ہر ساس اوربہو اپنالے تو نہ صرف میاں بیوی اور ساس سسر کی زندگی مشکل نہ ہو بلکہ پورا گھرانہ سکھی اور خوشحال رہے اور آنے والی نسل کی تربیت بھی اچھی ہو۔آنے والی نسل یعنی آئندہ کی کسی کی بہو اور کسی کے داماد کی عملی تربیت الفاظ میں اور پندونصیحت کی وصورت میں ہو نہ ہو اگر ان کے والدین کا آپس میں رشتہ اور برتائو محبت اور پیار اور عزت و احترام کا ہو آج اگر ایک ماںاپنی بیٹیوں کے سامنے اپنی بہوئوں سے اچھا سلوک کرے گی خود اپنے شوہر یعنی ان کے والد کا احترام کرے تو بچیاں دیکھ دیکھ کر ہی سیکھتی جائیں گی کہ بہو کوکیسا ہونا چاہئے اور ساس سسر سے کس طرح پیش آنا چاہئے میں ایک نارمل خاندان کی بات کر رہی ہوں ایسے لوگوں کی بات نہیں کرتی جوایسا کرہی نہیں سکتے بلکہ گھر میںہر وقت بلاوجہ شور مچانے اور لڑائی جھگڑے کے عادی ہوں ایسا کرنے والے والدین صرف اپنا تعلق اور گھر کاماحول ہی خراب نہیں کرتے بلکہ وہ اس تباہی کو اپنی اولاد میں بھی منتقل کر رہے ہوتے ہیں مشاہدے کی بات ہے کہ والدین کا لہجہ درشت اور سخت ہو تو بچے لاشعوری طور پرہی ان کالب و لہجہ اختیار کرنے لگتے ہیں دوران گفتگو کسی نے رشتے کرانے والی مشہور مسز خان کی بات کی جو لٹھ لے کر ہر وقت بچیوں ہی کے پیچھے پڑی رہتی ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کی نازوں پلی بیٹیاں نوکرانی اور خادمائیں بن کر کسی گھر کی بہو بن جائیں گزرے وقتوں میں ایسا ممکن بھی تھا اور ایسا ہی ہوا کرتا تھا مگر اب ایسا ممکن نہیں آج کی عورت مردوں کے ہم پلہ ہو گئی ہے اور وہ مردوں سے بھی ایسے ہی سلوک اور توقعات رکھتی ہے کچھ غلط بھی نہیں اور ماحول بھی ایسا ہی بن چکا ہے جب لڑکا لڑکی کی تعلیم ‘ عہدہ اور عقل و شعور مساوی درجے کی ہو تو محض صنفی بنیادوں پر ایک کا برتری جتلانے کاحق وجہ فساد ہی بنے گا۔اسلام میں مردوں کو قوی کہہ کرگھر کی سربراہی ضرور دی گئی ہے اس نکتے پرسر تسلیم خم کہ بیٹیاں بہرحال بیٹیاں ہی ہوتی ہیں اور عورت خواہ کتنی بھی طاقتور اور خود مختار کیوں نہ ہو صنف نازک ہی ہوتی ہے وہ کس قدر بھی خود مختار ہو اسے مرد کی بہرحال ضرورت رہتی ہے والد بھائی اور شوہر کے روپ میں اسے محافظ درکار رہوتا ہے یہاں پر ایک اور سچی کہانی یاد آگئی ایک اچھے عہدے پر فائزلڑکی کو معلوم ہواکہ ان کے شوہر نے اولاد کے لئے دوسری شادی کر لی ہے اپنی ماں بننے کی صلاحیت سے محرومی کا ان کوبخوبی علم تو تھا لیکن اس کے باوجود سوکن برداشت کرنے کاحوصلہ نہ تھا وہ کوئی فیصلہ کرے سے قبل دفترمیں خاتون اعلیٰ عہدیدار کے پاس گئیں اور کہانی سنا کرطلاق لینے کے فیصلے کا بتایاگرگ باراں دیدہ خاتون نے سمجھایا کہ سمجھداری کاتقاضا ہے کہ تم جذباتی فیصلہ نہ کرو تم جواں ہو خوبصورت ہو اچھا کماتی ہو اپناذاتی گھر بھی رکھتی ہو لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی مرحلے پر تمہیں مرد کی پناہ کی ضرورت ضرور ہو گی شوہر کی صورت میں تمہیں جوپناہ میسر ہے پھر اسے کھونا کیایہ بھی نہیں کہتی کہ اسے سرتاج بنائے رکھو بس یہ سمجھو کہ وہ تمہارا چوکیدار ہے تمہاری چوکیداری اور حفاظت کرتا ہے اسی سوچ کے تحت ہی الگ مت ہونا باقی زندگی اپنی مرضی سے گزار لینا اس خاتون نے بعینیہ اسی طرح کیا بلکہ صرف چوکیدارہی نہیں شوہر کوخادم کے ساتھ ڈرائیور بھی بنا دی ہے اپنا بہت خیال رکھتی ہے اپنی تنخواہ خود پراور عزیزوں پر خرچ کرتی ہے بیچارہ شوہر دوکشتیوں کا سوار خجل خوار مگر خاتون خوش کہ انہوں نے اپنے سے بڑے کی مانی اور اپنی زندگی اپنے ہاتھوں مشکل بناتے بناتے رہ گئی مرد بھی ناخوش نہیں کہ آخر وہ ایک نہیں دو دو بیگمات کا شوہر ہے زندگی کی گاڑی چل رہی ہے سوکن کے بچے اب ان کے بھی بچے اور پیارے ہیں ان کے اپنے بطن سے نہ سہی ان کے شوہر کے توبچے ہیں اور وہ ان کی بھی ماں کہلاتی ہے اور بچے بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں اس طرح کے حالات و واقعات اکثرپیش آتے ہیں آج کل لڑکیوں کے رشتے یعنی منگنی ٹوٹنے کے بڑے واقعات ہونے لگے ہیں ایک ہی گھر میں دو دوتین تین واقعات ہوتے ہیں میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ بلاوجہ کی آزادانہ گپ شپ اور ماحول ہے والدین بھی منگنی کے بعد نظریں چرا لیتے ہیں اور لڑکیوں کوڈھیل ملتی ہے لڑکے توویسے بھی کسی کے قابو میں نہیں آتے اس طرح کے واقعات کو جن خاندانوں میں معمول کاحصہ سمجھنے کی روایت ہے وہ تو اس کازیادہ اثر نہیں لیتے مگر ایسے لوگ کم ہوتے ہیں غالب ترین اکثریت خاص طور پر والدین کے لئے اس طرح کے حالات سوہان روح ہوتے ہیں اور وہ اس کا بڑا برا اثر لیتے ہیں پھر خاندان میں دشمنیاں اور ناراضگی کا طویل سلسلہ اور پہلے کے رشتے بھی باقی نہیں رہتے جس سے بچنا اب ناممکن ہوتا جارہا ہے کوشش ہونی چاہئے کہ والدین لڑکا لڑکی دونوں کی مرضی معلوم کرنے کے بعد بھی کچھ عرصہ رشتے کی رسم نہ کریں بلکہ کچھ عرصہ رشتے کی تجویز کوتجویز ہی رہنے دیں مگردونوں کا جائزہ لیتے رہیں منگنی ہو تو پھربلاوجہ طویل نہ بنائیں سنجیدگی کاتقاضا ہے کہ نکاح کر لیا جائے اس سے جوڑے کو ذمہ داری کااحساس ہوتا ہے اور دونوں میںانسیت و محبت بھی بڑھ جاتی ہے اور رشتہ بھی محفوظ ہوتا ہے آگے دونوں کی قسمت اور بس۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی